کے پی کے گیارہویں کلاس اسلامیات باب نمبر 2 اسلامی تشخص مختصر سوال جواب

KPK 11th Class Islamyat Unit 2 Islami Tashakhus Short Questions with answers are combined for all 11th class (Intermediate /hssc) Level students. Here You can prepare all Islamyat Unit 2 Islami Tashakhus short question in unique way and also attempt quiz related to this Unit. Just Click on Short Question and below Answer automatically shown. After each question you can give like/dislike to tell other students how its useful for each.

Class/Subject: 11th Class Islamyat

Unit Name: Islami Tashakhus

Board: All KPK  Boards

  • Malakand Board 11th Class Islamyat Unit 2 Islami Tashakhus short questions Answer
  • Mardan Board 11th Class Islamyat Unit 2 Islami Tashakhus short questions Answer
  • Peshawar Board 11th Class Islamyat Unit 2 Islami Tashakhus short questions Answer
  • Swat Board 11th Class Islamyat Unit 2 Islami Tashakhus short questions Answer
  • Dera Ismail Khan Board 11th Class Islamyat Unit 2 Islami Tashakhus short questions Answer
  • Kohat Board 11th Class Islamyat Unit 2 Islami Tashakhus short questions Answer
  • Abbottabad  Board 11th Class Islamyat Unit 2 Islami Tashakhus short questions Answer
  • Bannu Board 11th Class Islamyat Unit 2 Islami Tashakhus short questions Answer

Helpful For:

  • All KPK Boards 11th Class  Islamyat Annual Examination
  • Schools 11th Class Islamyat December Test
  • KPK 11th Class Islamyat Test
  • Entry Test questions related Islamyat

کے پی کے گیارہویں کلاس اسلامیات باب نمبر 2 اسلامی تشخص مختصر سوال جواب

اسلامی تشخیص سے کیا مراد ہے؟

اسلامی تشخیص: اسلامی تشخیص سے مراد ایسے تمام عقائد و نظریات اور اعمال و اخلاق ہیں جو ایک مسلمان کو دوسرے تمام انسانوں سے ممتاز کرتے ہیں جیسے ارکان اسلام، جہاد فی سبیل اللہ کا تصور، حقوق و فرایض کا تصور، حقوق العباد کی ادائیگی، اخلاق حسنہ کا حصول اور اخلاق رزیلہ سے پر ہیز وغیرہ۔ امتیاز ی طریقہ عبادت اور لباس وغیرہ۔

ارکان اسلام سے کیا مراد ہے؟

ارکان اسلام: ارکان اسلام جمع ہے رکن کا۔ معنی ہے ستون گویا اس سے مراد وہ بنیادی اعمال ہیں جن کی مثال ستونوں کی ہے۔ ارکان اسلام سے مراد دین کے وہ بنیادی اصول و اعمال ہیں جن پر اسلام کی پوری عمارت قائم ہے۔ یہ اصول و اعمال کلمہ شہادت، نماز، روزہ، زکوٰۃ۔، حج اور جہاد ہیں۔ چونکہ جہاد ضروری کبھی کبھی پیش آتی ہے لہٰذا عام احادیث میں پہلے پانچ ارکان کا ہی ذکر ہے رونہ جس عمارت کی حفاظت کا انتظار نہ ہو اور جس نظریے کو آگے پہنچانے اور دشمنوں سے محفوظ رکھنے کا انتظار نہ ہو وہ جلدی ہی مٹ جاتے ہیں۔ یعنی ان ستونوں پر عمارت کی قیام کا انحصار ہے اور جہاد عمارت کے حصار کی حیثیت رکھتا ہے جو باہر کے خطررے کو روک دیتی ہے۔

کلمہ سہادت پر مختصر نوٹ لکھیں۔

کلمہ شہارت: اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشھدان محمد عبدہٗ ورسولہٗ
ترجمہ: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں اس بات کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں،
کلمہ شہادت وہ کلمہ ہے جس کے پڑھنے سے انسان دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے۔ اس کلمے کی بدولت انسان کفر و شرک سے نجات پاتا ہے اور جنت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ یہ انسانی عظمت کا ضامن عقیدہ اور کلمہ ہے۔ اس کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں اللہ کی وحدانیت اور دوسرے حصے رسول اللہ ﷺ کی رسالت اور بشریت کا اقرار ہے۔

نماز کے فوائد بیان کریں۔

نماز ادا کرنے سے درج ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں:
احساس بندگی
اللہ تعالیٰ کی معصیت سے اجتناب کا احساس یا اللہ کی رضا کا احساس
گناہوں سے اجتناب محبت و یگابگت کا حصول
اجتماعیت کا شعور
مساوات کا عملی درس
بے نمازویوں کو نماز اور بندگی کی ترغین ملتی ہے۔
اجتما عی نظم و ضبط کا شعور
فرض شناسی
پابندی وقت
صفائی و پاکیزگی کا حصول

ضبط نفس سے کیا مراد ہے؟ روزہ کس طرح ضبط نفس پیدا کرتا ہے؟

روزہ اور ضبط نفس:
انسان کو برائی کے راستے پر ڈالنے والی ایک اہم چیز خواہش نفس ہے۔ خواہش نفس پر قابو نہ پانے کے نتیجے میں انسان حیوانیت کے درجے بھی نیچے گرتا ہے اور جب نفسانی خواہشات پر قابو اور کنٹرول کیا جائے تو انسان کے لیے نیکی کے راستے پر چلنا آسان ہوجاتا ہے۔ خواہشات نفسانی پر قابو پانے کو ضبط نفس کہتے ہیں اور روزہ اس کا بہترین طریقہ ہے کیو نکہ روزے کے داران ایک مسلمان حلال اشیاء سے محض خوف خدا کی وجہ سے تھوڑے وقت کے لیے باز رہنا اور خواہشات نفس کو کنٹرول کرتا ہے۔یہی مشق باقی ایام میں اس کو قابو میں رہنے کا سبق سکھاتا ہے۔

روزے کے فوائد بیان کریں۔

روززے سے ضبط نفس اور صبر و تحمل کا مادہ پیدا ہوتا ہے۔
روزے دار میں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
قناعت و ایثار جیسے صفات پیدا ہوتے ہیں۔
روزے جسمانی صحت کے لیے بھی مفید ہے۔
مختلف حالات مثلا بھوک وغیرہ سے نمٹنے کا بہتریں مشق ہے۔

قرآن مجید، رمضان اور پاکستان کا باہمی کیا تعلق ہے؟

رمضان المبارک وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کی رہنمائی کے لیے قرآن مجید نازل فرمایا ہے۔ اسی رمضان مبارک میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے آزادی دے دی اور پاکستان ۷۲ رمضان المبارک کی رات معرض و جود میں آیا۔ ہم نے یہ وعدی کیا تھا کہ پاکستان میں قرآن مجید کا قانون ہوگا۔ اب اسی بات کو پورا کرنے کے لیے ہمیں اپنی اسی وعدے کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔ اس طرح رمضان مبارک ہمارے لیے دوہری تعمتوں کے حصول کا مہینہ ہے۔

زکوٰۃ سے کیا مراد ہے؟

زکوٰۃ لا لغوی معنی پاک کرنے، بڑھنے اور پھلنے پھولنے کے ہیں۔ جبکہ اصطلاح لحاظ سے زکوٰۃ سے مراد وہ مالی عبادت ہے جو ہر صاحب نصاب مسلمان پر خاص مقدار میں سال میں ایک بار فرض ہوتا ہے۔ یہ اسلام کا دوسرا رکن ہے۔ واقیمو الصلوٰۃ واتواالزکوٰۃ
جب ایک مسلمان زکوۃ ادا کرتا ہے تو وہ اپنا ما پاک کرتا ہے اور اللہ تعالی اس کے مال میں برکت ڈال کر بڑھا دیتا ہے۔

زکوٰۃ کی اہمیت بیان کریں۔

زکوٰۃ کو اسلام کے موعاشی نطام میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ قرآن کریم میں اکثر مقامات پر نماز اور زکوٰۃ کا ذکر ایک ساتھ کیا گیا ہے۔ نمازاگر بدنی عبادت ہے تو زکوٰۃ ایک مالی عبادت ہے۔ زکوٰۃ کے ذریعے مال گردش میں رہتا ہے اور چند ہاتھوں میں مرتکز نہیں ہوتا۔ زکوٰۃ کی اہمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب حضررت ابو بکر ؓ کے عہد خلافت میں جب بعض لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو صحابہ کرام ؓ نے متفقہ طور پر ان کے خلاف تلوا اٹھا کر جہاد کیا تھا۔

زکوٰۃ کے فوائد بیان کریں۔

زکوٰۃ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ مسلمان اللہ تعالی کے حکم کی تکمل کرنا ہے۔ اس کے ذریعے مسلمانوں میں امداد باہمی، مال میں بر کت، گردش دولت، معاشی توازن،جارئم کا خاتمہ، غریبوں کی کفالت، دین کی ترقی، معاشی ترقی، باہمی محبت اور بخل سے نجات وغیرہ پیدا ہو جاتے ہیں۔

زکوٰۃ کے مصارف بیان کریں۔

زکوٰۃ کے مصارف آٹھ ہیں جو یہ ہیں:
فقراء
مساکین
نظام زکوٰۃ کے کارندے (عاملین)
مؤ لفتہ القلوب یا اسلام کی طرف مائل غیر مسلم
غلام کو آزاد کرنے
قرضدار
فی سبیل اللہ اور
مسافر

نصاب سے کیا مراد ہے؟

نصاب سے مرار مال کا وہ حصہ کم از کم خاص مقدار ہے جس پر اگر ایک سال گزر جاتے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے مثلا سونے کے نصاب لے لیے نصاب 7 1/2 تولے جبکہ چاندی کے لیے 52 1/2 تولے اور تجارت مال یا نقدی ان میں سے ایک کے مقدار کے برابر۔ اس طرح دیگر اشیاء میں الگ الگ نصاب مقرر کیا گیا ہے۔

حج سے کیا مراد ہے؟

حج لغوی اعتبار سے قصد کرنے اور ارادہ کرنے کو کہتے ہیں۔ جبکہ اصطلا حا اس سے مراد ذی الحجہ کے مخصوص ایام میں بیت اللہ کی زیارت کے لیے جانا اور وہاں ضرور ی افعال و مناسک اور مختلف عبادات بجالانا ہے۔ حج اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے اور ہر بالغ صاحب استطاعت مالدار مسلمان پر عمر بھر میں ایک بار فرض ہے۔ حج سے انکار کفر اور باوجود استطاعت ادا نہ کرنا سخت ترین گناہ ہے۔

حج کو جا مع العباد ات کیو نکہ کہتے ہیں؟

سحج کو جامع العبادات اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے اندر تمام عبادات کی روح شامل ہے۔ حج کے سفر کے داران نماز کے ذریعے قرب الٰہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ نماز ایک بدنی عبادات ہے جبکہ حج بھی ایک طعح کا بدنی عبادت ہے۔ زکوٰۃ ایک مالی عبادت ہے اس طرح حج کے لیے بھی مال خرچ کرنا پڑتا ہے۔ روزے کے ذریعے خواہشات نفس پر قابو پانا اور اخلاقی برائیوں سے اجتناب کا روح بھی حج میں داخل ہے۔ گھر سے دور اور سفر کی صعوبتیں جہاد کا رنگ ہے اس طرح اگر دیکھا جائے تو حج اکبر ایسی عبادت ہے جس میں تمام عبادات کی روح شامل ہے۔

حج کے فوائد بیان کریں۔

حج کے فوائد درج ذیل ہیں:
۱۔ یاد الٰہی ۲۔ اصلاح اور تزکیہ نفس کا سبب
۳۔ مساوات کا درس
۴۔ تجارتی اور معاشرتی فوائد
۵۔ سادگی کا درس
۶۔ ملی نظم وضبط کا شعور
۷۔ اجتماعت کا شعور
۸۔ اتضاد عالم اسلام کا سبب
۹۔ مسائل عالم اسلام کے ضل کا فارم

جہاد کا مفہوم بیان کریں۔

جہاد کے لغوی معنی کوشش کے ہیں جبکہ شرعی اصطلاح میں اس سے مراد وہ کوشش ہے جو دین کی حفاظت، فروغ اور امت مسلمہ کے دفاع کے لیے کی جائے اور ان تمام کو ششوں کا مقصد اللہ تعالیٰ کے دین کی سر بلندی ہو۔ یہ کوشش زبان، قلم، مال،فکر اور خود اپنی جان کا نذرانہ دے کر کیا جاتا ہے۔

جہاد کی اقسام بیان کریں۔

جہاد کی تقسیم دو طرح سے ہے۔ پہلی تقسیم بدی کے قوتوں کے لحاظ سے اور دوسری تقسیم ان بدی کی قوتوں کے خلاف جدوجہد کے وسائل کے لحاظ سے ہے۔ بدی کے قوتوں کے حوالے سے جہاد کی دو قسمیں ہیں۔
خواہش نفس کے خلاف جہاد
باطل اور طاغوت کے خلاف جہاد۔ وسائل ذرائع کے لحاظ سے جہاد کی چھ قسمیں ہیں۔
جہاد با القلب
جہاد باالقلم
جہاد باللسان
جہاد با السیف یا لسیح جہاد یعنی تقال
فکری جہاد
مالی جہاد

جہاد باالسیف کے کتنے اقسام ہیں؟

جہاد باالسیف کے دو بڑے اقسام ہیں
اقدامی جہاد دفاعی جہاد
اقدامی جہاد مسلم دنیا کے غلبے سے مشروط ہے کہ مسلمان غالب ہو کر کفار کو زیر نگین لانے کے لیے ان کے ملک کو فتح کریں گے یا ان پر جزیہ لگائیں گے اور مغلوب زندگی گزارنے پر مجبور کریں۔
یہ مظلوم میت کی حالت میں جب کفار مسلمانوں کے ملک دین یا عقائد و عبادات پر حملہ آور ہو تو ملک میں رہ کر کفار کا راستہ روکیں گے۔ یہ فرض ہوجاتا ہے

جاد اور جنگ میں کیا فرق ہے؟ واضح کریں۔

جہاد ایک خاص دینی اصطلاح ہے اور اس کے ساتھ فی سبیل اللہ کی شر ط لگی ہوئی ہے۔ جہاد کا مقصد حق کا دفاع اور فروغ ہے۔ اس کا مقصد ذاتی اغراض و مقاصد، ہوس ملک گیری، معاشی غلبہ یا ضذبہ بر تری کی تسکین بالکل نہیں ہوتا جبکہ جنگ ایک عام اور خونی اصطلاح ہے۔ جس کا مقصد مخصوص فرد، گروہ یا قوم کی ہوس ملک گیری جذبہ بر تری یا معاشی غلبے کے جذبہ کی تسکین ہوتا ہے۔ جنگ کے کوئی اصول نہیں ہوتے جبکہ جہاد کے لیے اسلام نے اصول متعین کیے ہیں اور یہی ان میں بنیادی فرق ہے۔

جہاد کے فضائل بیان کریں۔

سقرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں جہاد کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں۔ اس میں سے چند درج ذیل ہیں:
اللہ تعالی جہاد کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
جہاد درد ناک عذاب سے نجات کا ذریعہ ہے۔
جہاد میں شہید ہونے والوں کو زندہ قرار دیا گیا ہے۔
شہید کو تمام گناہ (سوائے قرض کے) معاف کیے جاتے ہیں۔
پہرہ دینے والے آنکھ کو دوزخ کی آگ نہیں چھوسکتی۔
دوران جہاد ایک نماز کی فضیلت ستر نمازوں سے زیادہ ہے۔
شہداء کوانعام یا فتہ لوگوں میں شمار کیا گیا ہے۔
جہاد کے ذریعے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کا امداد شامل حال ہوتا ہے وہ فتح حاصل کر کے کفالت پر اپنا رعب جماتے ہیں۔
جہاد عزت،نصرت اور قوت کا ذریعہ ہے۔
جہاد کے شہداء قیامت میں دوبارہ شہادت کی آرزا کریں گے۔

اللہ تعالی ٰ کے احسانات کیا ہیں؟

اللہ تعالیٰ کے احسانات بے شمار ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ہمیں زندگی بخشی ہے بلکہ زندگی کے لیے تمام لوازمات بھی ہمیں عطا کیے ہیں اور سب سے بڑھ کر احسان یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ذریعے ہمیں ایمان کی دولت سے سر فراز فرمایا۔ بے شک اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شمار ممکن نہیں۔ ان احسانات تقاضہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے سب سے ذیادی محبت کریں اور اللہ تعالیٰ اطاعت کریں۔

رسول اللہ ﷺ کے احسانات کیا ہیں؟

رسول اللہ ﷺ کے ذریعے ہمیں اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت دولت دین میسے آئی۔ آپ ﷺ نے خود تکالیف برداشت کیں تا کہ امت آخرت کی تکلیف سے نچ جائے۔ آپ ﷺ امت پر اس قدر شفیق ہیں کہ خود اللہ فرمایا کہ آپ بالمؤ منین روؤف الرحیم ہیں۔ آپ ﷺ نے کسی بھی موقع پر بددعا نہیں فرمائی اور امت کے بارے میں دعا کی کہ اللہ ان کو دنیا میں رسوا نہ کریں۔ رسول اللہ ﷺ کے ان احسانات کا تقاضا ہے کہ یم آپ ﷺ کی اطاعت کریں۔ اس طرح ہمیں اللہ تعالیٰ کی محبت بھی حاصل ہو جائے گی۔

رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کیوں ضروری ہے؟

رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اس لیے ضروری ہے کہ آپ ﷺ اطاعت دراصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کا ذریعہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے بغیر کوئی مسلمان بھی نہیں ہو سکتا۔ قرآن میں ارشاد ہے: من یطع الرسول فقد اطاع اللہ۔ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے منکر کے لیے جنت کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

حقوق العباد سے کیا مراد ہے؟

حقوق العباد سے مراد وہ حقوق ہیں جو دوسرے بندوں کے ایک بندے پر واجب ہوتی ہیں۔ بندوں کے حقوق کی ادائیگی بہت ضروری ہے کیونکہ بندوں کا حق اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرتا۔ حقوق العباد میں والدین، اولاد، زوجین، رشتہ دار، اساتذہ، پڑوسی، مساکین وغیرہ اور غیر مسلموں تک کے حقوق شامل ہیں۔

حقوق العباد کی ادائیگی میں کیا فلسفہ ہے؟ کیوں ضروری ہے؟ یا حقوق العباد کی ادائیگی کے ثمرات بیان کریں۔

حقوق العباد کی ادائیگی کی صورت میں موحول خوشگوار ہوتا ہے۔ ہر ایک اپنی صلاحیتیں مواشرے کی ترقی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح حسن معاشرے کا ایک ماحول بن جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس صورت میں معاشرے کا نظم و ضبط بگڑ جاتا ہے اور تخریبی رجحانات تعمیری صلاحیتوں کو مفلوگ کر دیتے ہیں۔ اس طرح معاشرے کا امن و سکون ختم ہو جاتا ہے۔

والدین کے حقوق کیا ہیں؟ یا اولاد کے فرائض بیان کریں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے بعد والدین کے حقوق کی ادئیگی کی تلقین فرمائی ہے۔ والدین کا نا فرمان جنت کے خوشبو سے محروم رہے گا۔ والدین کے چیدہ چیدہ حقوق یا اولاد کے فرائض یہ ہیں:
قول حسنہ
حسن سلوک
ادب و احترام
شکر گزاری
خدمت
دعا ئے مغفرت
والدین کے رشتہ دار سے حسن سلوک
اطاعت
والدین کی نافرمانی سے بچنا
والدین کی مالی امداد

اولاد کے حقوق یا والدیں کے فرائض بیان کریں۔

اسلامی تعلیمات کے تحت والدین پر اولاد کے حقوق (والدین کے فرائض) حسب ذیل ہیں:
زندگی کا حق
بنیادی ضروریات کی فراہمی مثلا کھانے پینے، رہائش اور اعلاج کا حق
بہترین نام رکھنا
عقیقہ و ختنہ
رضاعت
اولاد کے درمیاقن عدل و انصاف
شفقت و رحمت
حسب مقدور بہتر تعلیم و تربیت بمعہ علم دین
نکاح
وارثت کا حق

خاوند کے حقوق (بیو کے فرائض) کیا ہیں؟

اسلامی تعلیمات میں بیوی کے ذمے شوہر کے چیدہ چیدہ غقوق درج ذیل ہیں
اطاعت
تحفظ مال و عصمت
شوہر کی خوشنودی اور اس کے راحت و سکون کا خیال رکھنا
قناعت و شکر گزاری
شوہر کے رشتہ داروں سے حسن سلوک

بیوی کے حقوق (شوہر کے فرائض) کون کون سے ہیں؟

بیوی کے چند اہم حقوق درج ذیل ہیں
حسن سلوک
ادائیگی مہر
عدل و انساف
نان و نفقہ
دینی و اخلاقی تربیت
حق خلع
رازداری
حق وراثت
بیوی کے جذبات و احساسات کا پاس کرنا (عزت کرنا)
بیوی کے رشتہ داروں سے حسن سلوک

رشتہ داروں کے حقوق کیا ہیں؟ مختصر ا بیان کریں۔

اسلام میں صلہ رحمی اور رشتہ داروں سے حسن سلوک کی بار بار تلقین کی گئی ہے۔ رشتہ داروں کی چیدہ چیدہ حقوق و فرائض ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔
حسن سلوک
صلہ رحمی
امداد و تعاون
وراثت کا حق

اسا تذہ کے حقوق کون کون سے ہیں؟ مختصر ا بیان کریں۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کی مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے اس لیے اساتذہ کا مقال بہت بلند ہے۔ ایک حدیث شریف میں استاد کو باپ (روحانی) قرار دیا گیا ہے۔
اساتذہ کی عزت و احترام نہ کرنے والے کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اساتذہ کے چند حقوق یہ ہیں
ادب و احترام
اطاعت و خدمت
حسن ظن
معاشی تحفظ
معاشرتی وقار
دعائے خیر و مغفرت
استاد کی قابلیت پر اعتماد
بے کار اور بے فائدہ سوالات سے اجتناب
توجہ شاگرد استاد کی بات توجہ سے سنے
تنقید برائے تنقید نہ کرنا

ہمسایوں کے حقوق مختصرا بیان کریں۔

اسلام نے پڑوسی کے حقوق پر بڑا زور دیا ہے۔ پڑوسیوں کے چند حقوق حسب ذیل ہیں۔
حسن سلوک
مالی مدداور تعاون
عیادت
ایذاء رسانی سے پرہیز
جان، مال اور عزت کی حفاظت
تبادلہ تحائف
نیکی کی تلقین اور برائی سے منع کرنا
پردہ پوشی
کفن دفن میں شرکت

ہمسایوں کے کتنی قسمیں ہیں؟ مختصر بیان کریں۔

قرآن مجید نے تین قسم کے ہمسائے بیان کیے ہیں۔ یعنی
رشتہ دار پڑوسی
وہ پرسی جو رشتہ دار نہیں
وہ تمام افراد جن سے عارضی طور پر تعلوات قائم ہوں مثلا پیشہ، ہم جماعت یا شریک سفر افراد وغیرہ۔

غیر مسلموں یا ذمیوں کے حقوق کیا ہیں؟ مختصر بیان کریں۔

اسلامی معاشرے میں یر اقلیتوں کے درج ذیل حقوق ہیں:
جان، مال اور عزت و ناموس کی حفاظت
مذہبی اور شخصی آزادی
معاشرتی حقوق کی حفاظت جو غیر مسلموں کو تمام معاشی حقوق حاصل ہوں
معاہدات کی پابندی ان کے ساتھ جو معاہدے کیے جائیں ان کی پابندی لازم ہے کیو نکہ اسلام ہر قسم کے مواہدوں کی پابندی کا درس دیتا ہے۔

دیانت داری سے کیا مراد ہے؟

دیانت کا لفظ امانت کے ہم معنی ہے کیو نکہ دیانت ہے دین سے اور امانت ہے ایمان سے۔ اس کا متضاد خیانت ہے۔ امین شخص کے لیے دیانتدار کا لفظ بولا جاتا ہے اور خائن کو بد دیانت کہتے ہیں۔ اس طرح دیانت داری کا مطلب امانتداری کے ہیں۔ معاشی اور معاشرتی تعلقات کی استواری کے لیے دیانتداری ایک بنیادی شرط ہے۔ دیانتدارہ کا دائرہ صتف مالی معاملات تک محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ وسیع اور زندگی کے تمام پیلوؤ ں میں شامل ہیں حقوق العباد کی ادائیگی دیانتداری میں شامل ہیں۔

ایفائے عہد سے کیا مراد ہے؟

ایفائے عہد سے مراد وعدہ پورا کرنا ہے۔ایفائے عہد کو اسلامی تعلیمات میں بنیادی اہمیت حاصل ہے کیو نکہ اکثر معاملات کی بنیاد وعدوں ہر ہوتی ہے۔ اگر معاہدوں کی خلاف ورزی شروع ہوجائے تو سارے معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:، وعدے پورے کر لیا کرو بیشک وعدوں کے بارے میں باز پرس ہوگی، اور اس کی وجی سے نبی کریم ﷺ نے سخت سے سخت حالات میں بھی عہد کی پابندی فرمائی ہے۔ ایفائے عہد حکم الہٰی، دین کی بنیاد اور مؤمن کی نشانی ہے۔

سچائی کی اہمیت بیان کریں۔

حضور ﷺ نے فرمایا کہ: الصدق ینجی والکذب یھلک
ترجمہ: سچائی انسان کو ہر آفت سے محفوظ رکھتی ہے اور جھوٹ ہلوک کر ڈالتا ہے۔
سچائی کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ تمام انبیاء کرام ؑ وہیں سے سچائی حاصل کی اور دنیا میں پھیلائی۔ سچائی نجات، وسیلہ جنت اور باعث عزت و ترقی ہے۔

عدل و انصاف سے کیا مراد ہے؟ مختصر ا بیان کریں۔

عدل و انساف کے لفظی معنی برابر بانٹنے اور نصف نصف کرنے کے ہیں۔ جبکہ اسلامی اخلاقیات میں عدل و انساف کا معنی ہے۔ ہر شخص کے ساتھ وہی معاملہ کرنا کس کا وہ دراصل حقدار ہے۔ عد ا انصاف کا تقاضہ ہے کہ ہر سخص کو اس کا جائز حق آسانی سے دیا جائے۔ عدل کا تعلق زندگی کے ہر گوشے سے ہے۔ کائنات کا یہ نظارہ عدل ہی کی بدولت قائم ہے۔ عدل و انساف باعث امن، حصول جنت کا ذریعہ، معاشی ترقی اور حصول تقویٰ کا ذریعہ ہے۔

اسلامی نظام عدل کیا ہے۔ اختصار سے بیان کریں۔

قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے: ان اللہ یا مر بالعدل ترجمہ: بیشک اللہ تعالی عدل کا حکم دیتا ہے۔
اسلامی نظام عدل کے طفیل دنیا عدل و انساف کے اس اعلیٰ معیار سے آشنا ہوئی جس نے رنگ و نسل اور قوم و وطن کے امتیازات کو مٹاکر رکھ دیا اور انسان کو بلا امتیاز تمام نسل انسانی کے درمیانی مساوات قائم کرنے کا حکم دیا۔ رسول اللہ ﷺ اور آ ﷺ کے خلفائے عاشدین انتہائی عادل تھے۔ قبیلہ بنی مخزوم کی فاطمہ نامی خاتون کی چوری کی سزا پر حضرت اسامہ ؓ کی سفارش پر آپ ﷺ نے ناپسند ید گی کا اظہار فرمایا۔ اسلامی حکومت کا اصل مقصد ہی نظام عدل کا قیام ہے۔

قانون کا احترام نہ کرنے کی بنیادی و جوہات کیا ہیں؟

حترام قانون سے کوئی انکار نہیں کر سکتا تا ہم پھر بھی دنیا میں قانون کی خلاف وزی کی جاتی ہے۔ حضوصا ہمارے معاشروں میں لوگ یہ بہادری سمجھتے ہیں۔ اس کی بنیادی طور پر دو وجوہات ہیں۔
خود غرضی اور مفاد پرستی ۲) خعد کو قانون سے بالا سمجھنا
اسلام نے ان دونوں وجوہ کا تدراک کر کے مسلمانوں کو قانون کا پابند بنایا ہے۔ جو ابدی ہی کا احساس اور شعور انسان کو قانون کا پابند بناتا ہے۔

کسب حلال پر مختصر نوٹ لکھیں۔

کسب حلال کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام ؑ مؤ منین اور عام لوگوں کو علیحدہ علیحدہ ارشاد فرمایا کہ پاکیزہ اور حلال چیز یں کھاؤ۔ عبادات کی قبولیت کے لیے کسب حلال بنیادی شرائط میں سے ہے۔ کسب حلال حکم خدا وندی کے مطابق فرض ہے اس کی بدولت مال میں بر کت ہوتی ہے اور معاشی ترقی ہوتی ہے۔ جس مواشرے میں ناجائز ذرائع آمدنی عام ہو جائے تو وہ معاشرہ تباہ و بر باد ہو جاتا ہے۔ اس لیے اسلام نے معاشرے کو تباہی سے بچانے لے لیے کسب معاش کے تمام غلط طریقوں سے بچنے کی تلقین کی ہے اور نا جائز ذرائع اختیار کرنے والوں کو جہنم کی خبر دی ہے۔

اخلاق رزیلہ سے کیا مراد ہے؟

ایسے اخلاق و کردار جن کو اختیار کر کے انسان حیوانی درجے میں جا گرتا ہے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے۔ اسلام ایسے تمام اخلاق رزیلہ سے بچنے کی تلقین کرتا ہے جس سے انسان کی شخصیت داغدار ہوتی ہے اور اسے ہر قسم کی نیکی اور بھلائی سے محروم کرتا ہے جیسے جھوٹ، غیبت، بہتان، منافقت، تکبر اور حسا وغیرہ۔

،جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے، واضح کریں۔ یا جھوٹ کے نقصانات بیان کریں۔

جھوٹ وہ قبیح گناہ ہے جو نہ صرف خود برائی ہے بلکہ بہت سی دوسری اخلاق برائیوں کا سبب بھی ہے۔ اسی لیے تو رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ جھوٹ بولنا دوزخ میں لے جانے والا عمل ہے اور اسی وجہ سے جھوٹ تمام برائیوں کی بنیاد ہے۔ جھوٹ بولنا منافقت کی علامت ہے۔

غیبت سے کیا مراد ہے؟ مختصر ا بیان کریں۔

کسی شخص کی غیر موجود گی میں اس کی ایسی برائی بیان کرنا جو اس میں موجود ہو اور اس کے سامنے بیان کی جائے تو ایسے تکلیف پہنچے۔اخلاق بیماری میں غیبت بہت بری بیماری ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے زنا سے بد تر اور سخت قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ قرآن مجید میں اسے اپنے بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ غیبت سے باہمی تفرت پیدا ہو جاتی ہے اور دشمنی کے جذبات ابھر تے ہیں۔

غیبت اور بہتان میں فرق بیان کریں۔

غیبت پیٹھ پیچھے موجود عیب کو بیان کرنے کو کہتے ہیں۔ اگر وہ شخص جس کی غیبت کی جائے اسے برامانے جبکہ بہتان سے مراد یہ ہے کہ کسی شخص کا ایسا عیب بیان کیا جائے جو اس میں موجود نہ ہو اور اس کے دامن پاک کو بلا وجہ داغ دار بنایا جائے۔

منافقت سے کیا مراد ہے؟ یا منافق کون ہوتا ہے؟

منافقت کا لفظ نفاق اور نفق سے نکلا ہے۔ جو لغت میں سر نگ کے لیے بولا جاتا ہے اور اس کا مقصد بوقت ضرورت دھوکے کے سے اس خفیہ راستے کو استعمال کرنا ہوتا ہے۔ تو منافقت کا مطلب ہے، قول، فعل کا باہم مطابق نہ ہونا، یعنی بوقت ضرورت چور دروازہ استعمال کرنا۔ منافق انسان کے دو چہرے ہوتے ہیں اور ان کے ذعیعے دوسرں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ قرآن پاک نے مشرکین اور کفار سے بھی زیادہ منافقین کی مذمت کی ہے اور ان کا مقام جہنم کے سب سے نچلے طبقے کو قرار دیا ہے۔

نافقین کی کتنی قسمیں ہیں؟

منافقین کی دو قسمیں ہیں۔
۱) وہ منافق جو دل سے اسلام کی صدا قت و حقانیت کا قائل نہیں لیکن کسی مصلحت یا شرارت کی بناء پر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں اور اسلام کو نقصان پہنچا نا چاہتا ہے۔ جس طرح کہ عبد اللہ ابن ابی مدینے میں نماز بھی پڑھتا تھا۔
۲) عملی منافق وہ ہوتا ہے جو اگر چی خلوص نیت سے اسلام قبول کرتا ہے لیکن نعض بشری کمزوریوں کی وجہ سے اسلامکے عملی احکام پر چلنے میں تساہل یا کوتاہی کرتا ہے یا اس میں علامات نفاق ہو مثلا عودہ خلافی، جھوٹ، گالیاں اور خیانت گری۔

نافقین کی نشانیاں بیان کریں۔

حضور ﷺ نے منافق کی پہچان بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا: کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں
جب بولے تو جھوٹ بولے
جب عودہ کرے تو خلاف ورزی کرے
جب کوتی امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں ضیانت کرے۔
ان نشانیوں کے ہوتے ہوئے چاہے وہ نماز اور روزے کا پابند ہو وہ منافق ہی ہوتا ہے۔

تکبر کے بارے میں مختصر ا اظہار خیال کریں۔

تکبر کے معنی خود کو برتر اور بڑا سمجھنے اور ظاہر کرنے کے ہیں۔ ولا تمش فی الارض مرحا انک لن تخرق الارض۔۔۔۔۔۔۔ مخلوق میں سب سے پہلے تکبر شیطان نے کیا اور کہا کہ میں حضرت آدم ؑ سے افضل ہوں۔ جس کے نتیجے میں ہمیشہ کے لیے ذلیل و خوار پوا۔ تکبر اور عاجزی کے بارے میں بنی ﷺ کا ارشاد ہے۔ من تواضع لاخیہ المسلم رفعہ اللہ ومن ارتفع علیہ وضعہ اللہ۔۔۔۔
کو اپنے مسلمان بنائی کے ساتھ عاجزی اور تواضع سے پیش آتا اللہ تعالیٰ کو اس کو بلند رتبہ دیتا ہے اور جو مسلمان بھائی کے ساتھ تکبر سے پیش آئے اللہ تعالیٰ اس کو گرا دیتا ہے۔ قرآن کریم میں تکبر کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم بتایا گیا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ، جس کے دل میں رائی برابر غرور ہوگا وہ انسان جنت میں داخل نہیں ہوگا، تکبر فتنوں کی جڑ، جہنم کا باعث، رحمت ضداوندی سے محرومی اور ذلت کا سبب ہے۔

حسد سے کیا مراد ہے؟ حسد کے نقصانات واضح کریں۔

حسد کسی زوال نعمت کی آرزو کرنا حسد ہے یعنی دوسروں کو جب کوئی تعمت یا سکون حاصل ہو تو اس نعمت کو دیکھ کر جلنا اور اس سے تعمت کے زوال کا خواہش کرنا حسد ہے۔
حسد بہت ہی بری اخلاقی بیماری ہے جس کے نتیجے میں حسد اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ حسد کے نتیجے میں سابقی امتیں تباہ ہو چکے ہیں۔ یہودی حسد ہی کی وجہ سے نور ایمان سے محروم رہے۔ حسد نیکیوں کو ختم کرتا ہے۔ حسد باعث ہاکت ہے۔ نیکیوں کا ضیاع ہے اور بربادی و زوال کا سبب ہے۔

You Can Learn and Gain more Knowledge through our Online Quiz and Testing system Just Search your desired Preparation subject at Gotest.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button