زندگی میں نظم و ضبط کی اہمیت

زندگی میں نظم و ضبط کی اہمیت

                        نظم کا  لفظ نثر میں استعمال ہوتا ہے۔نثر میں ایک فقرے میں یا چند فقروں میں مقصد و مدعا  بیان کیا جاتا ہے۔ لیکن ان میں ردیف قافیہ کی بندشیں اور ترتیب کاخیال نہیں رکھا جاتا۔جبکہ نظم میں الفاظ کو ایک خاص ترتیب سے رقم کیا جاتا ہے۔ جس میں کم سے کم الفاظ میں بہت بڑی بات سمجھا ٰ ٰئی جا سکتی ہے۔ زندگی میں نظم و ضبط سے مراد زندگی کو ایک قانون،قائدے اور سلیقے سے گزارنا ہے۔ایسی زندگی جس کے مثبت پہلو زیادہ نمایاں ہوں اور وقت کا کم سے کم ضیاع  ہو۔

                        اگر کارگہہ کائنات کی وسعت پرنگاہ  نظر ڈالی  جائے  تو آسمان  سے زمین تک جو کچھ اس میں ہے۔ ایک خاص قائد ے  اور قانون  کے تحت سرگرم ہے۔ فلک گیر و فلک پیما پہاڑ،بل کھاتی اور گنگناتی ندیاں بادل کی  سرمئی گھنگھور گھٹا ئیں،بارش کا چھم چھم  برسنا، سورج کا مشرق کی طرف سے نمودار ہونا اور شام کو گل و گلزار کو حنائی رنگ دے کر مغرب میں غروب ہو جانا،چاند کا اپنے وقت مقرر پر اپنی تھنڈی اور ترو تازہ چاندی سے کائنات کو مستفید کرنا ستاروں کا اپنی اپنی گزر گاہوں سے گم کردہ راہ مسافر وں کی رہنمائی کرتے ہوئے انکھوں سے اوجھل ہو جانا  مختلف رنگ کے پھولوں کا  مختلف  خوشبوں اور اپنی خیزوں سے فضاوں کو معطر کرنا،شبنمی ہواؤں  کا پھولوں کے دھندلکے چہروں کو نکھارنا،پہاڑوں کی بلندیوں  سے پانیوں کے جھرنوں کا گرنا اور فضا  میں مترنم ارتعاش پیدا کرنا  ایک بہت برے نظم و ضبط  کا مظہر ہے۔  کائنات کی یہ خوبصورتی،یہ حسن و جمال اور یہ لطافت ورعنائی ایک ہی لمحے میں ختم ہو جائے اس کے نظم و ضبط میں خلل آ جائے۔ اس قائدے اور قانون کا نام زندگی و حیات ہے۔اس نظام و قائدے کے ٹوٹ جانے کا نام موت ہے۔

زندگی    کیا        ہے        عناصر    میں        ظہور      ترتیب

موت     کیا        ہے        انہی       اجزا  کا    پریشان       ہونا

                        اگر انسانی ذات کی داخلی کائنات پر غور کیا جائے یا اس کی ہیت پر تدبر و فکر کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس  کے اعضا و جوارح،اس کا عضلاتی نظام،اعضابی نظام،خون کا گردش کرنا،رگ و ریشہ کا آپس میں ملاپ واتصال،دل کی دھڑکن، دماغ کی فکر انگیزی،آنکھوں کی  نینائی،کانوں کی سمات،ناک کی قوت تسامہ زبان کی قوت ذائقہ  وغیرہ ایک خاص ترتب سے اپنے اپنے افعال سرانجام دے رہے ہیں  جس سے پیدائش وارتقااور صحت و توانائی عمل میں آتی ہے۔اگر ان اعضا میں کوئی بھی اپنا کام نہ کرے تو نہ صرف زندگی وبال بن جاتی ہے بلکہ محال بن جاتی ہے تمام اعضا کا اپنے اپنے مدار و حدود میں رہتے ہوئے اپنے کامموں کو پوری طرح  سے ادا کرنا ہی بنائے صحت و زندگی ہے۔

                        خدائے لم یزل نے تخلیق آدم کے بعد اس کی رہنمائی کے لیے انبیاکرام علیھم السلام کا سلسلہ شروع کیا۔ وقتاًفو قتاً ہر ملک ہر شہر میں جہاں آبادی موجود تھی اپنے انبیا کرام علیہم السلام کے ذریعے ان کے اجتمائی نظام کو ایک خاص ترتیب دینے کے لیے ایک ایسا مربوط نظام دیا۔جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ اس ضابطہ حیات میں اجتمائی  وانفرادی زندگی میں نظم و ضبط کا ایسا خوبصورت امتزاج ملتا ہے کہ انسانی عقل ورطہ حیرت میں ڈوب جاتی ہے۔ آپ کے سامنے چند درخشندہ و تابندہ اور تابناک اصول و ضوابط کے حوالے پیش کیے جاتے ہیں۔

صلٰوۃ

                        نماز کی ادائیگی اسلام کے ضابطہ حیات کی مظہر ہے۔ جس میں پانچ وقت پابندی کے ساتھ ایک امام کی اقتداء میں امیر غریب رنگ و نسل اور علاقائی و لسانی تعصبات  سے بلند ہو کر ایک ہی صف میں کھڑے  ہوکر اللہ تعالی کی  بندگی بجا  لانے کا دلکش و د لفریب  منظر نہ صرف نگاہوں کو اچھا لگتا ہے بلکہ مسلمانوں کی اجتمائی زندگی کے ارتقامیں اس کی بڑی اہمیت ہے۔یہ نماز وقت کی پابندی امرواطاعت مساوات انسانی اور فکر و نظر کی آہنگی میں ایک تسلسل قائم کیئے ہوئے ہے۔نماز کا یہ تربیتی عمل زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہونے جؤکی وجہ سے مسلمان کی زندگی نظم وضبط  کی خوگر ہو جاتی ہے اور یہی عمل انسانی فلاح کا باعث بنتا ہے۔

روزہ

                        نماز کی طرح روزہ بھی انسانی زندگی میں ایک خاص نظم و ضبط پیدا کرتا ہیں۔ایک خاص مقرر ہ وقت پر کھانا کھانیاور ایک خاس وقت تک بھوکے رہ کر اور اپنے فکر ونظر میں بھی پاگیزگی کی یہ کوشش معاشرے میں توازن پیدا کرنے کا باعث ہے۔ نماز اور روزے کی طرح تمام عبادات و فرائض انسانی ذات  کی تکمیل کے لیے انسانی زندگی میں نظم و ظبط پیدا کرتے ہیں۔اسلام کے اسی نظم و ضبط کانتیجہ تھا کہ جبرو استبد کے قبائلی ماحول میں جہاں جہاں جہالت اور  اجداد  کے اندھے قانون ڈیرے ڈالے ہو ئے تھے۔ جہاں بچیوں کو زندا در گور کیا جاتا تھا۔جہاں شراب اور زنا روز کا معمول تھا۔جہاں کعبہ کا طواف برہنہ کیا جاتا تھا۔ وہاں پر چند اشخاص کی نظم و مربوط جدوجہد کے نتیجے میں ایک معشرہ تشکیل پایا جس میں آزادی ونظر کی شمع فروزواں ہوئی خواتین کے حقوق متعین کیے گئے۔ قبائلی و شعوب تعصاب دفن کر دیے۔ یہ سارا کچھ کیسے ہوا یہ سارا کچھ نظم و ضبط کا مرہون منت ہے۔

                        زندگی کا ہر سؤشعبہ نظم و ضبط کا متقاصی ہے اگر فوج ہی کی مثال لی جائے تو ہم پر واضح ہو جاتا ہے کہ اگر فوج میں نظم و ضبط نہ ہوتو کیسی بڑی قوت تو کیا کسی چھوٹی سی قوت کے سامنے بھی ٹھہر سکتی ہے۔لیکن عسکری تربیت یافتہ  چند افراد کا گروہ اگر منظم کر دیا جائے  تو وہ بڑے سے بڑے طوفان کا مقابلہ بھی کرلیتے ہیں اسی طرح  تعلیمی اداروں کا دورا  لیا جائے  تو اندازہ ہوتا ہے کہ اگر طلبہ و اساتذا وقت پر تعلیمی اداروں میں نہ آئیں اور اپنے وقت  پر متلقہ مضامین کا مطالعہ نہ کیا جائے تو حصول تعلیم کی کوشش کبھی کامیا ب نہیں ہو سکتی۔ایک گھر ہی کی مثال لے لیں کہ اگر گھر کا سربراہ جس کی ذمہ داری بیرونی معا ملات  نگداشت ہوتی ہے اور اسی طرح خواتین کی ذمہ داری اندرونی و خانگی مسائل کوحل کرنا ہوتا ہے۔ اگر یہ دونوں فریق اپنی اپنی ذمہ داری  اپنے مقررہ کردہ سماجی نظم و ضبط کے مطابق ادا نہ کریں تو گھر کی گاڑی ایک قدم بھی نہیں چل سکتی ہے۔ زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جس میں نظم و ضبط کے بغیر کامیابی حاصل کی جا سکے۔تاریخ عالم  کے عروج و زوال  اس بات پر گواہی دے رہے ہیں۔کہ جن اقوام نے اپنی صفوں میں نظم و ضبط کو قا ئم رکھا کامیابی و کامرانی ان کا مقدر ٹھری۔جن اقوام و ممالک نے نظم وضبط کو ختم کر کے انتشار و افتراق  پیدا کر لیا ان کو ذلت و مسکنت سے کوئی نہیں بچ سکا  ہے۔ بے ہنگم،غیر مربوط،غیر منظم انسانوں کے انبوہ کثیر اور جم غفیر  پر متحد منظم یکجا اور مربوط افراد نے  ہمیشہ فتح حاصل کی۔اگر اطاعت امیر اور نظم و ضبط  کا خیال رکھا گیا توجنگ بدر میں نیم مسلح۳۱۳ مسلمان نے ایک ہزار کفار کے مسلح لشکر کو شکست سے فاش دی۔ جب اطاعت امیر پر  پوری طرح عمل درآمدنہ ہوا تو جنگ احد کی صورت میں ایک مکمل فتح  شکست خورد فتح میں تبدیل ہو گئی جس میں انحضرت محمد ﷺ کے جسم اطہر پر بے شمارزخم آئے اور بے تحاشا جانی نقصان آتھانا پڑا۔ اس لیئے یہ ایک تے شدہ حقیقت ہے کہ جو اقوام اپنی صفوں میں نظم وضبط پیدا کر لیں وہ بام عروج تک پہنچ جائیں گئی۔ جو اقوام زندگی کے اس سنہر ی اصول کو انحراف کریں گی ذلت و رسوائی غربت و جہالت، تنگ دستی و بدحالی،بیماری و بدکاری ان کا مقدر ہو گا۔

                        اگر ہم بزم خویش اپنا احتساب کریں  تو حقیقت ہم پر منکشف ہوتی ہے کہ ہماری پوری قوم کا شیرازہ منتشر ہو چکاہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ بھی نظم و ضبط  کی نقرئی وطلائی زنجیر میں جکڑا ہوا نہیں ہے۔ سب سے پہلے کار پردازان حکومت کو اور صاحبا ن عقل و عقد دیکھیں  تو پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ حکومت لوٹ گھسوٹ نے معاشی طبقات کی لوٹ کو اور وسیع کر دیا ہے ۔ نظام عدل ایک کھیل تما شے سے بلند کوئی چیز نہیں رہی۔پولیس اور انتظامیہ کا روبار ریاست کو اپنی منفعت کے لیے استعمال کرتی ہے۔

مقتدر طبقات کی لوٹ زکوٰۃ کے فنڈ سے حج کے لیے طائفے بھیجنا اور جانے والے خود اپنی ذات پر فخر محسوس کرتے ہیں  جناب مقتدر طبقہ ہی کا رونا نہیں۔ تمام سیاستدان جمہورت کے نام پر اپنی اپنی دکان کھولے بیٹھے ہیں۔اقرباء،پروری،حکومتوں کو گرانا،دوسروں کو زچ کرنا،اپنے مفاد کا تحفظ کرنا،لچھے دار تقریریں کرنا اور لفظوں کو گورکھ دھندون میں سادہ عوام کو پھنسا لینا  ان کا فر ض جمہورت  ہے۔

                        علما ء و مشائخ کا ذکر نا کرنا صرف نظر ہو گا۔یہ بلند و بالا منزہ و مظاہر، پاکیشہ و مقدس گروہ ہے۔  جن کے جنبشابرو پر لوگ تقدس کے حوالے سے جانوں کے نذرانے  پیش کرتے رہے ہیں  لیکن اعوام ان کی ملمع سازی،وضعداری اور بناوٹ سے پوری طرح آگاہ ہو گے ہیں۔ یہ سرف اپنی جاہ

طلبی کے علاوہ مفاد کے تحفظ کے لیے منبر رسول  خاتم النبیین ﷺ براجمان ہیں  تو کوئی ولایت کے چکر میں اعوام کے دل و دماغ  پر اپنی اجارہ داری سمجھتے ہوئے قابض ہیں۔ فکر و نظر پر پابندی ہے۔فتویٰ گری عام ہے۔قول و فعل میں تصاد ہے پوری قوم کو منظم و منضبط کرنے والا نام نہاد بزرگوں کا یہ گروہ عوام میں انتشار و افتراق کا باعث ہے۔ فرقہ واریت کو ہوا دی جا رہی ہے۔ قتل وغارت کا بازار گرم ہے۔تحقیق سے ودوری ہے۔سطح علم پر نازاں ہیں۔ ان حالات میں اگر کوئی عروج کا خواب دیکھے تو ان کو خود فریبی کے سواء کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔

                        حالات کی سنگینی اس قدر شدت اختیار کر گئی ہے کہ اب ہر کس و نا کس حکومتی،سیاسی،مذہبی اور معاشی معاملات پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ تمام طبقات کی منحوس مکروہ اور انسانیت سوز کارروئیاں اب عوام کے سامنے ہیں۔ عوام کے اندر  ایک لاوا پگھل رہا ہے۔ جو ایک طوفان کی طرھ پٹھے گا  اور ان بدکار روایوں اور شخصیات کو بہا لے جائے گا اور پھر اس قوم کی شیرازہ بندی ہو گی۔ اس میں فکر و نظر کی آزادیی کے ساتھ ساتھ ہم آہنگی بھی پیدا کی جائے گی  حقوق و فرائض کا توازن بہال کیا جائے گا۔ نظام عدل،نظام تعلیم اور نظام صحت کو منظم و مربوط بنایا جائے گا۔ اس کے نعد ہم ترقی یافتہ قوموں میں شمار ہونے کے قابل ہو سکیں گے۔ جو اقوام اس وقت ہم حکمرانی کر رہی ہیں۔ ان میں یہی جوہر مو جود ہے کہ پوری قوم ایک تسنیح کے دانوں کی طرح منظم ہے۔ جس کے طفیل وہ بلا دست قوم ہے اور ہم منتشر ہونے کے باعث زیر دست قوم ہیں بالادست ہونے کے لیے ہمیں بھی زندگی کے ہر شعبے میں نظم و ضبط کو قائم کرنا ہو گا۔

You Can Learn and Gain more Knowledge through our Online Quiz and Testing system Just Search your desired Preparation subject at Gotest.

Waqas Ali

Welcome, future leaders! I'm Waqar, your mentor in Education Field. Dive into my articles for career advice, success stories, and tips to carve your path. Let's embark on this journey of growth and achievement together!

Your Related

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button