امت مسلمہ کو در پیش مسائل
امت مسلمہ کو در پیش مسائل
آغاز اسلام کے تھوڑے عرصے بعدہی اسلام کا آفتاب دوردور تک چمکنے لگا اور عربوں کی حکومت کی حدود یورپ کی سر حدوں سے ملنے لگیں م ایران،عراق،مصر، افریقہ،اسپین اور سسلی وغیرہ کی سلطنتیں اسلامی سلطنت کا جزو بن گئیں۔ لیکن وہ ہی مسلمان جن کا قدم جس طرف اٹھتا تھا کامیابی و کامرانی ہمرکاب ہوتی تھی،۔آخر وہ ہی فاتح قوم عروج اور ترقی کے اصول کو پست ڈالنے کی وجہ سے ذلت میں گر گئی۔ حلفائے راشدین کے بعد دنیا کی رہنمائی کرنے والے مسلما ن کا دینی، روحانی اور اخلاقی معیار بلند نہ تھا جو اسلامی حکمرانوں کے شایان ہونا چا ہیے تھا نہ ان میں روح جہاد تھی نہ قوت اجتہاد، جو دینا کی پیشوائی اور عالم گیر قیادت کے لیے ضروری ہے۔سیاسی انتشار کی بنیاد تو حضر ت عثمان ؓ کے شہید ہونے سے ہی پڑ گئی تھی۔ حضرت علی ؓ کے عہد میں اسلامی سلطنت مختلف سیاسی دھڑوں میں بٹ گئی بعد ازاں حضرت امام حسین ؓ کی شہادت سے اسلامی سلطنت کی فضا بلکل تاریک ہو گئی۔ حضرت امام کی شہادت سے کائی سیاسی اور مذہبی تحریکوں نے جنم لیا۔اہل ایران نے سیاسی امنگوں کے حصول کے لیے واقعہ کربلا کا سہارا لیا۔عباسی تحریک کی اساس بھی واقعہ کربلا تھی ۔ غرض یہ ایک ایسا سلسلہ شروع ہو ا جس سے ملت اسلامیہ مختلف دھڑوں اور مختلف ریاسو ں میں تقسم ہو گئی۔
خلافت راشد ہ کے دور خلافت میں خلیفہ کے انتخاب کا معیار تقوٰی اور قابلیت تھا لیکن اموی اور عباسی عہد میں خلافت ملوکیت کی شکل اختیار کر گئی اس کے نتیجہ میں دین وسیاست میں عملی تفر یق پیدا ہو گئیاور سیاست دین کی نگرانی سے علیحدہ ہو گئی۔حکمران حکومت و سیاست کو تنہا ہاتھوں میں رکھتے۔علما و اہل دین حکومت کے خلاف رہتے یا سیاسی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کرتے اس طرح اہل دین اور دنیا کے دو علیحدہ علیحدہ پہلو بن گئے اور ان کے درمیان اختلاف کی خلیج وسیع ہوتی گئی اور بعض اوقات بیگانگی سے بڑھ کر مخالفت کی نوبت آ گئی حکمران اور حکمران طبقہ چوں کہ دین و اخلاق کاکامل نمونہ نہیں تھا اور لوگ عموٰماً انہی کے اخلاق و عادات و رجحانات کی تلقید کرتے تھے ا ن کی رو ح اورنفسیات کا قومی زندگی پر اثر پڑناعین قدرتی تھا اس وجہ سے جہالیت کو اسلامی مما لک کے اندر سانس لینے کا موقع ملا۔مسلمان شجاعت،صبر استقلال اور ضبط نفس کے اخلاق سے عاری ہو گئے۔لذت پرستی،شہوت پرستی مادہ پرستی کے دلداہ بن گئے بادشاہ امراو زرا،حسین و جمیل عورتوں کی صحبتوں میں زیادہ وقت گزارنا پسند کرتے تھے معاشرتی زندگی شر م و حیااور عضمت وعفت سے عاری ہو گئی عیش پرستی میں پڑ کر خلفا نے امور سلطنت سے بے اعینائی برتی۔روسااور ارکان سلطنت خود سر ہو گئے اور بغاوتوں کا سلسلہ چل نکلا۔چوں کہ مسلمان حکمران اپنے اخلاق واعمال و معاملا ت میں اسلامی شریعت اوردیگر قوانین اسلام کی نمائندگی نہیں کرتے تھے اس لیے غیر مسلموں پر برا اثرپڑااور ان کے دلوں سے اسلام کے پیغام کا اثر جاتا رہا اور ان کا اعتمادنا اہل حکمرانوں نے زائل کر دیا۔اسی دورانحطاط میں مسلمانوں میں بے شمار شرک و بدعات نے جنم لیا۔آہستہ آہستہ مسلمانوں میں قدیم قدیم جاہل قوموں کے عقائد وخیالات اور دینی گمراہی جیسے خطرناک مرض پیدا ہوتے گئے۔اسی دور میں مسلمان علما ومفکرین نے ان علوم و تجربوں کی طرف توجہ نہیں دی جو ان کے لیے کائنات کی قوتیں مسخر کر دیتے اور پھر وہ ان کو اسلام کے عین مطابق بنا کر عالم پر اسلام کے روحانی اور مادی تسلط کا باعث بنتے۔اس کی بجائے مسلمان علما اور مفکرین علوم نا بعد الطبیعات اور یونانیوں کے فلسفہ الٰہیات میں صدیوں تک دیدہ ریزی کرتے رہے۔جس کا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔
اسی اثنا ء میں مسیحی یورپ جو صدیوں سے اسلام سے خا ر کھائے بیٹھا تھا،نے شام،فلسطین پر دھا وا بول دیا اور یروشلم پر غاضبانہ قبضہ کر لیا۔عین اس کش مکش کے دور میں عالم اسلام کے افق پر ایک نیا ستارہ طلوع ہوا۔ یہ موصل زنگی کا خاندان تھا۔جس کے دو افراد عمادالدین زنگی اور اس کے فرزند نوردین زنگی نے صلیبیوں کے قبضے سے آزاد کرایا۔صلح الدین کی مجاہدانہ کوششوں اور ان کی بروقت قیادت نے عالم اسلام کو کو صلیبیوں کی غلامی کے خطرے سے عرصے تک کے لیے محفوظ کر دیا۔لیکن عالم اسلام پر پھر غفلت طاری ہو گئی اور ناہمی اختلافات نے اور خانہ جنگیوں نے سر اٹھا یا اور عالم اسلام پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک انحطاط اور تنزل چھا گیا۔اس نازک دورمیں ایک نیا فتنہ تاتاری نمودارہوا۔انھوں نے آناًفاناً عراق اور شام پر قبضہ کر لیا۔۶۵۶ء میں تاتاری دارلخلافہ بغداد میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اس کے بعد انھوں نے مصر کا رخ کیا لیکن شکست فاش کھائی۔تاتاری حملہ سے عالم اسلام کو زبردست دھچکا لگا۔علوم دینیہ،ادب و شاعری تصنیف و تا لیف اور اخلاق و معاشرت سب پر اثر پڑا۔بہت سارا عالمی خزانہ تباہ و برباد ہو گیا اور جو بچ گیا اس کی حفاظت کا مسلہ پیدا ہو گیا۔کچھ عرصہ بعد عثمانی ترک تاریخ کے منظر عام پر آئے۔مسلما ن ترک ایک بلند صلہ وپرجوش اور زندہ قوم تھی۔ان میں جہاد کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا۔وہ اپنی جنگی طاقت سے اسلام کے مادی اور روحانی تسلط کو کو دنیا میں پھیلا سکتے تھے۔اسی کیے ایک وقت تھا کہ جب عثمانی سلاطین یورپ،ایشیاء اور افریقہ پر بیک وقت حکومت کر تے تھے۔ترکوں کی جغرافیائی حیثیت بھی ان کے لیے ممدو معاون تھی لیکن با لآخر ترک بھی تمام تر صلاحیتوں کے با وجود زوال پذیر ہوئے۔ان کے زوال کا سبب وہ جمود تھا جو ترکوں کی علم و تعلم فنون جنگ اور عسکری تبظیم وترقی میں واقع ہو چکا تھا اس جمود کی لپٹ میں صرف ترکی ہی نہیں بل کہ پورا عالم اسلام مشرق سے لے کر مغرب تک آیا ہوا تھا
جب سارا عالم اسلام سو رہا تھا تو یورپ اپنی لمبی نیند سے بیدار ہو ا اور اس نے ہر شعبے میں ترقی کی۔ قوموں کے تاریخ اس دور میں نئے سرے سے ڈھل رہی تھی ۱۷۷۴ء میں یورپ کی قوموں نے عثمانی افواج کی شکست دی۔ اس طرح اٹھاویں اور انیسویں صدی میں مرارکش،الجزائر،مصر،ہندوستان اور ترکستان میں مصر مشرق کی مسلما ن اقوام اور مغربی قومو ں اور طاقتوں کے درمیان جو معر کے پیش آئے ان کا فیصلہ درا صل سولہویں اور سترھو یں صدی میں ہو گیا تھا۔اس کے علاوہ غداری،اختلافات اور اقتصادی تنزل بھی مسلمان کے زوال میں اہم عنصر کی حیثیتھے رکھتے ہیں۔
اسلامی تہذیب کی بحالی
آج سے چودہ صدی بیشتر جب اسلام نے ظہور کیا تھا تواس و قت د نیامیں بڑی بڑی سلطنتیں قائم تھیں۔ جن کے ناموں کے ساتھ آج بھی عظمتوں کے پرچم لہرا رہے ہیں۔رونا کا نیرو،ایران کا کٰسری اور چین کا قانون دنیائے آدم کے شاہان بے امان تھے لیکن ان کی شوکت ہمیشہ کے لیے حرف غلط کی طرح مٹ گئی۔سبب یہ تھا کہ ان کے نظاموں کی بنیاد حق پر نہ تھی۔اس کے برعکس اسلام حق کا دوست اور باطل کا دشمن ہے اس لیے مسلمانوں نے بارہ سال تک سر بلند ی کی مثال قائم کی روح نکالنے کی کوشش کی لیکن سراسر ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔اسلام نے اپنی اندیت کا ثبوت رہ رہ کر دیااور فرزندان توحید نے دیکھتے ہی یورپی تسلط کا جناہ نکال دیا۔آج یورپی تہذیب نے اسلامی دنیاکے ایک طبقے پر گہرا اثر ڈال رکھا ہے لیکن غالب اکثریت اس پر اثر کو ذائل کرنے لیے کوشاں ہے۔پندرھویں صدی ہجر ی نے جب پہلے روز عالم اسلام پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ جس تیزی اور خاموشی سے یورپی رذائل زندگی نے اسلامی صفوں میں نفوذ کیا تھا۔ اسی تیزی اور خاموشی سے اپنی صفوں کو ان رزائل سے پاک کرنے میں کوشاں ہے۔بہت ہی جلد مسلم نوجوان یورپ کے تیزی سے بگڑتے ہوئے معاشرتی ڈھانچے سے عبرت اندوز ہو کر نمائش اور عریانی کے دباو کے خلاف جہاد کردیں گے۔
اسلامی ممالک میں ذہنی قوت
اقوام کو اپنی معدنیات سے مستفد ہونے کے لیے زہنی استعداد لی نھی ضرورت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے اسلامی ممالک کے باشندو ں کو ذہنی استعد سے بھی مالا مال کیا ہے ہمارے اہل علم کی طاقت کا لوہا اہل یورپ نے بھی مان لیا ہے ہمارے تعلیم یا فتہ اشخاص سے اہل یورپ اور امریکہوالے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں کوئی وجہ نہیں کہ یہی افراد اپنی لیاقت کو خیرالامم کے سہی مقام سے اشنا کر دیں۔وہ دن دور نہیں کے مسلم نوجوان جن کو اللہ تعالیٰ نے علمی،سائنسی اور انتظامی خوبیوں کا مایہ دار کیا ہے۔اپنے اپنے ملکوں کے تقدرتی ذخائر کوزمین سے باہر لا کر صنتی ترقی کو چار چاند لگا زمانے میں علمائے اسلام نے سائنسی ایجادات میں دنیا کی رہبری کی تھی یوں نظر آتا ہے کے تاریخ اپنے آپ کو د ہرانے والی ہے اور مسلما ن سائنس دان پھرایجا دات کے باب میں قیادت کا مقام سنبھالیں گے۔فطرت کے اصول اٹل اور نا قابل تغیر ہیں۔فطرت جوہر قابل سے زیادہ دیر تک بے اعتنائی کبھی نہیں کرتی۔فطرت امتحان ضرور لیتی ہے۔جائز تمناؤں کا خون نہیں کرتی۔وہ حقدار کو اپنے حق سے کبھی مہحروم نہیں رکھتی۔ملت اسلامیہ کا امتحان بہت ہو گیا اور اس کی محرومی پر کتنی ہی خزائیں سر کر چکیں۔ا ب اگلی صبح سر خروئی اور کا مر انی کی صبح ہے پاکستان بنا تھا تو ہمار ے اونی اورسو تی کپڑوں نے برطانوی کارخاوں کو ما ت دی تھی۔سیالکوٹ کا جراحی سامان یورپ تک جاتا تھا لیکن افسوس یہاں بھی ہمیں ازمایش کی کٹھن راہوں سے گزرنا پڑا۔ہم غیروں کی سازشوں اور اپنوں کی کوتا نظروں کا شکار ہو گئے لیکن یہ آزمائشیں بھی اب اپنے منطقی انجام کے قریب آ لگیں ہیں۔ہمارے نوجوانوں کی ذہنی استعد اد تازہ قوت کے ذخیرہ کے ساتھ میدان میں عمل میں اتر رہی ہیں کسی ملک میں ذہنی قوت کا ذخیرہ جب وافر ہو جاتا ہے تو وہ مجبوری کے ہر حصار کو تور کر نکلتا ہے اور اپنے لیے عمل کے میدان میں خود تیار کر لیتا ہے۔جدید دینا میں جرمنی اور جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔فطرت کے اس قانون کو باطل کی کوئی طاقت تغیر نہیں کر سکتی ہے۔
وفاقی ضروریات کی بہم رسائی
اسلامی ممالک میں نہ صرف تیل کے عوض ددولت کے انبار جمع ہو رہے ہیں۔بل کہ سونے کی کانے سونا اگلنے کے لیے بے تاب ہیں لیکن یاد رہے کہ دشمن کا مقابلہ اسلے سے ہوتا ہے۔دشمن کا سر سونے اور چاندی سے نہیں پھوڑا جا سکتا ہے۔مسلمان صیح معنوں میں اپنے پاوں پر کھڑا نہیں ہو سکتا جب تک وہ اسلحہ کے کارخانوں میں خود کفیل نہیں ہو جاتا ہے۔امت اسلامیہ کو تاریخ میں کبھی اتنے کثیر خونخوار دشمنوں سے سابقہ نہیں پڑا تھا پاکستان سے لے کر مراکش تک مسلمانوں کا ایک ہی سلسلہ آباد ہے۔یہ خطہ پوری مسلم دنیا کا دل ہے۔مسلمانوں کی پوری آبادی پوری دنیا کے نصف سے زیادہ ہے لیکن اسلامی دنیا ہر طرف سے دشمن سے گھیرے میں ہے۔بھیڑے سرحدوں پر دانت نکالے کھڑے ہیں اور سازشوں کے سر طان اپنی جڑوں کو مضبوط کر رہے ہیں اس ساری مصیبت کا سبب یہی ہے کے مسلما ن اسلحہ میں خود کفیل ہے۔عرب ممالک دنیا کے امیر ترین ممالک ہی سہی لیکن اسلحہ میں اغیار کے محتاج ہیں آج عید قربان کے روز اخبارات کہہ رہے ہیں امریکی کانگریس کی متعلقہ کمیٹی نے سعودی عرب کو ایک خاص قسم کے جدید طیارے فروخت کرنے کی تجویزکو مسترد کر دی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کے ہم کب تک ہتھیاروں کے لیے دوسروں کے رحم و کرم پر رہیں گے۔آج ملت اسلامیہ کیانفرادی طاقت کو دنیا کی کوئی سلطنت پہنچ سکتی ہے۔ ہمارے نوجوان نہادر ترین اور زیرک ترین مرد ہیں سرد وگرم جنگیں بہادری سے ہی پر نہیں زیر سے لڑی جاتی ہیں امریکہ نے ایک ایٹمی بم پھینک کر جاپانی شجاعت کو ٹھکانے لگا دیا تھا۔ جب یورپی اقوام نے دنیا ئے اسلام پر قبضہ جمایا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کے وہ اسلحہ میں برتر تھے۔انگریز برصغیر سے اس لیے بھاگنے پر مجبورہوا تھا کہ مسلمان سپا ہ کو جدید ٹینک مل گئی تھی اور ا نگریز اس سے خائف تھا۔آج ہمیں حال کی تاریخ بھی اسی حقیقت کا پتا دے رہی ہے کہ دفا عی اسلحہ کی تیاری کیے بغیر ہمیں زندہ رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔پیغمبر اسلام خاتم النبیین ﷺنے وصال فر مایاتھا تو متاع دنیا کا کوئی ورثہ چھوڑ کر نہ گئے تھے لیکن گھر میں دفاعی سامان یعنی تلوار اور برچھیو ں کا لازمی ذخیرہ موجود تھا۔
صنعتی اور زرعی ترقی
دفاعی سامان کے بعد ہماری دوسری ضرورت دانے،چنے کی دال،قمیض کے بٹن اور بوٹ کے تسمے سے لے کر ایٹم بم تک کے لیے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے۔
اسلامی ممالک میں معدنی ذخائر
اج اسلامی حکومتیں اپنی سر زمین اور قسمت کی خود مالک ہیں۔اسلامی سر زمینوں میں عطیات قدرت کے بے بہا اور بے پایاں ذخیرے پوشیدہ پڑے ہیں اور اپنی نمود کے لیے تیشۂ فرہا د کے منتظر ہیں وہ کون سی معدنیات ہیں جن کا سراغ اسلامی ممالک کی سرزمینوں میں نہیں ملتا ہے۔ تیل کے چشمے بحروبر کی گہرائیوں سے ابل رہے ہیں اور پوری دنیاایک بوند کے لیے آس لگا ئے بیٹھی ہے۔عرب دنیا اگر آج اپنے روغنی چشمو ں کا فیض یورپ سے روک لے تو یورپ کی زندگی آناًفاناً معطل ہو کر رہے جا ئے اور ان کی صنعتوں کی چکا چوند نشان تک نظر نہ آئے۔
یہودیت
ُٰپہلی عالمگیر جنگ میں عربوں نے ترکیہ کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔اس کا صلہ انھیں انگریزوں نے یہ دیا کہ ا ن کے وطن کا ایک حصہ یہود کے حوالے کر دیابرطانوی وزیراعظم نے۲۲۹۱ء میں اعلا ن کیا کہ فلسطین یہود کا آبائی وطن ہے۔اس لیے ان کو دبارہ یہاں آباد کیا جائے گا ۔فلسطین کے باشندے گھر سے بے گھر ہو گئے اور وہاں یہودریاست قائم ہو گئی۔اس ریاست نے آہستہ آہستہ اپنی قوت پیداکر لی ہے کہ ساری ملت اسلامیہ کو للکار رہی ہے۔یہود کے ارادے یہ ہیں کہ وہ اپنے بازو پو ری عرب میں دنیا پر پنجے گاڑے یہودی پھیلاؤ کا مالیخالیا ان میں تحریک کی صورت اختیار کر گیا صہیونی تحریک کا نشانہ عرب دنیا ہے۔اس تحریک کی سرشت بھی اس کی غمازی کر رہی ہے کہ یہود اپنی ہی طاقت کے نشہ میں مخمور ہو کر سر کے بل گرا چاہتے ہیں۔قرآن حکیم کے اس اعلان کے تعبیر کے دن قریب آ گئے ہیں کہ یہود جہاں کہیں بھی ہوں ان پر ذلت چپساں کر دی گئی ہے۔ اس لیے اہل اسلام کو نہ صرف تدبر کا کوہر د یکھانا ہے بل کہ آگ اور خون کا کھیل بھی کھیلنا ہے۔
You Might Also Like
- Women Place in Society Essay with Outline and Quotations
- The Power of Public Opinion Essay With Outline and Quotation...
- Corruption in Public Life Essay With Outline and Quotations
- Generation Gap Essay With Outline and Quotation
- The Importance of Discipline in Life Essay with Outline
- Pleasures of Reading Essay with Outline
- Leisure – Its Uses and Abuses Essay with Outline
- Social Responsibilities of a Businessman Essay with Outline
- The Importance of Consumer Movement Essay with Outline
- Sportsmanship Essay With Outline