فوجی تربیت کیوں ضروری ہے
فوجی تربیت کیوں ضروری ہے
تاریخ عالم کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہمیشہ طاقت ورا قوام کمزورپر دندان حرص تیز کرتے ہوئے انھیں اپنی حوس اقتدار کا نشانہ بناتی آئی ہیں۔جا پرست بادشاہوں،طا لع آزما جرنیلوں او ر مہم جوسالاروں کے ساتھ بند گان خدا پر ملکوں ملکوں قیامتیں ٹوٹتی رہتی ہیں۔سکندر اعظم اور اس کے گھڑ سوار واں یونان سے پنجاب تک کے علاقوں اپنے گھوڑوں کے سموں تلے روندڈالا تھا۔چنگیز خان اور حلاکو خان جیسے خون آشام تاتاریوں نے اسلامی دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجاتے ہوئے اس وقت کی ساری مہذہب آبادیوں کو خون میں نہلا کے رکھ دیا۔ہن قوم کے وہشی لشکر نے پولینڈ تک مار کر کے آبادیوں کو راکھ کے ڈھیرمیں تبدیل کے دیا تھا۔خود بر صغیر پاک و ہند کی قدیم و جدید تاریخ کے اوراق چھوٹی بڑی کتنی جنگوں کے چھنٹوں سے خون آلود ہیں
بڑے ممالک ہمیشہ چھوٹے ممالک کو للچائی نظر سے دیکھتے آئے ہیں۔چھوٹی قوموں پر بڑی قوموں کی رال ہمیشہ ہی ٹپکتی ہی رہی ہے اور یہ بزعم خود بڑی قومیں اپنے سیاسی اور مادی مفاد کی خاطر مختلف حیلوں بہانوں کی اڑ لیتے ہوئے چھوٹی قوموں کی آزادی ختم کرنے کے ہمیشہ درپے رہی ہیں۔جس طرح انگریز ہندستان کی سر زمین پر محض تاجر کی حیثیت سے وارد ہوئے تھے لیکن مقامی حکمرانوں کے انتشار سے فائدہ اٹھا کر جوڑتوڑ کر کے اور ریشہ دانیوں سے کام لیتے ہوئے سیاسی طاقت حاصل کر کے ملک کے فرما ں رواں بن بیٹھے تھے،اسی طرح آج کی طاقت ور اقوام کمزور اقوام کو ہڑپ کر نے پر تلی ہو ئی ہیں۔چناں چہ دنیا کے کمزور اور چھوٹے ملکوں کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی آزادی و سالمیت کے حفاظت کے لیے ہر ممکن تدابیر اختیار کر یں اور ملکی سر حدوں کے دفاع کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں۔
موجودہ دور میں مہلک ہتھیاروں کی نئی نئی ایجادات کی وجہ سے جنگیں پرانے دور کی جنگوں سے بلکل مختلف ہوگئی ہیں اور جنگ کا روایتی تصور بلکل تبدیل بل کہ ختم ہو گیا ہے۔،ماضی میں کھلے میدان میں افواج کا آمنہ سامنا ہوتا تھا۔تیر، تلواراور نیزے جیسے ہتھیار کام میں لائے جاتے تھے۔شہری آ بادیاں نہ ان جنگوں میں شامل ہوتی تھی اور نہ ان سے متاثر ہوتی تھیں مگر دور حاضرکی جنگوں میں صرف فریقیں کی فوجیں ہی نہیں بل کہ اکثر و بیشتر فریقین کی شہری آباد ی کو بھی لڑائی میں شریک ہونا پڑتا ہے۔اب جنگ نہ تو کسی ملک کی سرحدوں پر لڑی جاتی ہے اور نہ سرحدوں تک محدود رہتی ہیبل کہ دشمن پچھلی جانب سے وار کرنے اور اپنے حریف ملک کی فوجی صفیں درم برہم کرنے کے لیے طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کا کے ذریعے میدان جنگ کے عقب میں بھی اپنی چھاتہ بردار فوجیں اتار دیتا ہے۔اب گولے اور بم ضرف فوجی ٹھکانوں پر ہی نہیں گائے جاتے بل کہ شہری آبادیوں،کارخانوں اور صنعتی مراکز کو بھی ان کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
چناں چہ آج کے دور میں اگر کوئی ملک اپنی سلامتی اور بقا چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی فوجوں ہے کو نہیں بلکہ اپنی قوم کے ایک ایک فرد کوپوری اور باقائدہ فوجی تربیت دے تاکہ دشمن کسی ایک علاقے پر قبضہ کر لے تو ملک کے عام شہری گلی گلی اور کوچے میں جنگ جاری رکھ کر اسے ملک کی سرحدوں سے باہر دھکیل دیں۔اگر دشمن شہری آبادیوں پرقابض ہو جائے تو جنگلوں،پہاڑوں اور صحراوں کو مرکز بنا کر اس کے خلاف جنگ جاری رکھیں اور اس طرف سے گوریلا جنگ سے دشمن کا ناطقہ بند کر دیں۔الجزائر نے فرانس کے خلاف ویت نام نے امیریکہ کے خلاف اور افغا نستان نے روس کے خلاف چھاپا مار جنگ کر کے ہی اپنے سے کئی گنا ء بڑی اورعالمی وسائل رکھنے والی طارقتوں کو نیچا دکھایا ہے۔
پاکستان ایک چھوٹا سا ملک ہے اور اسے روز اول ہی سے اپنی آزادی برقرار رکھنے کا مسلۂ پیش رہا ہے۔اتنے برس گزر جانے کے باوجود پاکستان کی سالمیت کو لاحق خطرے میں کوئی کمی نہیں ہو ئی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے بھارت جیسے عیار،مکار وعدہ خلاف اور کینہ توز دشمن سے واسطہ پڑا ہے جس نے پاکستان کے قیام کو ایک لمحے کے لیے بھی صدقے دل سے قبول نہیں کیا۔رقبہ کے لحاظ سے پاکستان بھارت کا 1/6حصہ ہے اور س افواج اور جنگی وسائل بھی بھارت کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔کشمیر کے مسائل پربھارت اور پاکستان کی تین جنگیں ہو چکی ہیں اور تیسری جنگ میں پاکستان اپنے مشرقی بازو سے مجروم ہو چکا ہے۔مگر اس کے با وجود بھارت کے معاندانہ رویے میں کمی نہیں آئی۔ سلسلے میں بڑی طاقتوں کا رویہ بھی پاکستان کے حق میں نہیں بلکہ اس کے خلاف جاتا ہے کیوں کے یہ طاقتیں حق اور انصاف کا ساتھ دینے کی بجائے صرف اپنے مفاد سامنے رکھتی ہیں کشمیری عوام بھارت کے چنگل سے آزادی حاصل کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور اس سلسلے میں انھیں پاکستان کی پوری تائیداور اخلاقی امداد حاصل ہے۔اس کے باوجود بھی بھارت کشمیر سے دست بردار ہونے پر آمادہ نظر نہیں آتا۔اس کے سامراجی عزائم میں کوئی کمی نہیں آئی اور وہ کسی وقت ننجی جھلاہٹکے عالم میں یا کوئی عذر لنگ تراش کے پاکستان پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔
اس قسم کے ناز ک حالات میں بھارت کی فوجی قوت اور اس کے جارحانہ عزائم کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ پاکستان کے دفاعی انتظامات کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنایا جائے۔لیکن بھارت کے مقابلے میں ہمارے وسائل اس کے وسائل کے لحاظ سے بہت تھوڑے ہیں۔تعداد کے لحاظ سے ہمیشہ اس کے مقابلے کم رہے گی۔چناں چہ بھارت کے سامراجی عزائم کا مقابلہ کرنے اور اپنی آزادی حفاظت کرنے کے لیے صرف ایک ہے صورت باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنے ملک میں لازمی فوجی تربیت کا نظام رائج کریں جس کے تحت یہ ضروری ہو کہ ملک کے نوجوان ہی نہیں بل کہ تمام صحت مند افراد فوجی تربیت حاصل کریں۔اس سلسلے میں سکولوں اور کالجوں کے طلبہ اور طالبات کو فوجی تربیت لازمی طور پر دینے کا قانون بطور خاص بنانا اور نافذ کرنا ضروری ہے۔اس وقت تعلیمی اداروں میں رضا کارانہ طور پر فوجی تربیت حاصل کرنے کے جو انتظامات موجودہیں ضرورت ہے کہ انھیں وسعت دی جائے کہ ہر تعلیمی ادارے کا ایک ایک طالب علم لازناًفوجی تربیت حاصل کر سکے۔اس طرح ملت کے نونہال تعلیم کے ساتھ ساتھ شہری دفاع،نشانہ بازی اور مختلف جنگی ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت حاصل کر کے قوم کی دفاعی طاقت میں اضافہ ثابت ہوں گے اور آنے پر دشمن کے ہر چیلنج کا منہ توڑ جواب دے کر اس کے جارحانہ عزائم کو ناکام بنا سکیں گے۔
You Might Also Like
- Women Place in Society Essay with Outline and Quotations
- The Power of Public Opinion Essay With Outline and Quotation...
- Corruption in Public Life Essay With Outline and Quotations
- Generation Gap Essay With Outline and Quotation
- The Importance of Discipline in Life Essay with Outline
- Pleasures of Reading Essay with Outline
- Leisure – Its Uses and Abuses Essay with Outline
- Social Responsibilities of a Businessman Essay with Outline
- The Importance of Consumer Movement Essay with Outline
- Sportsmanship Essay With Outline