کے پی کے نہم کلاس اُردو سبق نمبر 7 دستک مختصر سوال جواب
KPK 9th Class Urdu Lesson 7 Dastak Short Questions with answers are combined for all 9th class (Matric /ssc) Level students. Here You can prepare all Urdu Lesson 7 Dastak short question in unique way and also attempt quiz related to this Lesson. Just Click on Short Question and below Answer automatically shown. After each question you can give like/dislike to tell other students how its useful for each.
Class/Subject: 9th Class Urdu
Lesson Name: Dastak
Board: All KPK Boards
- Malakand Board 9th Class Urdu Lesson 7 Dastak short questions Answer
- Mardan Board 9th Class Urdu Lesson 7 Dastak short questions Answer
- Peshawar Board 9th Class Urdu Lesson 7 Dastak short questions Answer
- Swat Board 9th Class Urdu Lesson 7 Dastak short questions Answer
- Dera Ismail Khan Board 9th Class Urdu Lesson 7 Dastak short questions Answer
- Kohat Board 9th Class Urdu Lesson 7 Dastak short questions Answer
- Abbottabad Board 9th Class Urdu Lesson 7 Dastak short questions Answer
- Bannu Board 9th Class Urdu Lesson 7 Dastak short questions Answer
Helpful For:
- All KPK Boards 9th Class Urdu Annual Examination
- Schools 9th Class Urdu December Test
- KPK 9th Class Urdu Test
- Entry Test questions related Urdu
کے پی کے نہم کلاس اُردو سبق نمبر 7 دستک مختصر سوال جواب
ڈاکٹر زیدی دروازے پر جو دستک سنتے تھے، اس کی اصل وجہ کیا تھی؟
ڈاکٹر زیدی دروازے پر جو دستک سنتے تھے، وہ اصل دراصل اس کے ضمیر کی آواز یا دستک تھی۔ اصل قصہ کچھ یوں تھا کہ برسوں پہلے ڈاکٹر زیدی کے دروازے پر ایک بوڑھے نے دستک دی تھی۔ وہ اپنے بیمار بیٹے کے علاج کے لیے ڈاکڑت جانا چاہتا تھا مگر ڈاکٹر صاحب نے تھکاوٹ کی وجہ سے اس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا بعد میں ڈاکٹر زیدی اپنے کیے پر پشیمان ہوا اور بوڑھے کو بہت ڈھونڈا مگر وہ نہ مل سکا۔ اب وہی دستک ڈاکٹر زیدی کو بیماری کے داران بار بار سنائی دے رہی تھی گو یا ضمیر کی دستک اسے بار بار پریشان کر رہی تھی۔
دستک کے سللے میں ڈاکڑت زیدی اور بیگم زیدی کے درمیان جو مکالمے ہوئے، ان کا خلاصہ تحریر کریں۔
ڈاکٹر زیدی دروازے پر دستک کی آواز سن کر اپنی بیگم سے کہتا ہے کہ دروازے پر دستک ہوئی ہے۔ مگر بیگم کق ابا کہتی کہ دروازے پر کوئی دستک نہیں ہے یہ محض تمھارا وہم ہے۔ ڈاکٹر زیدی زوردے کر کہتا ہے کہ دروازے پر دستک ہے اگر تم نہیں جانا چاہتی تو پھر میں اٹھ کر جاتا ہوں۔ بیگم کہتی ہے کوئی دستک نہیں ہے، باہر تیز ہواؤں کا شور ہے آخر ڈاکٹر زیدی کے اصرا پر بیگم پر دے کے پیچھے جاتی ہے اور چند لمحوں بعد واپس آکر کہتی ہے کہ کوئی نہیں ہے۔ داکٹر صاحب پھر پوچھتا ہے کہ تم نے دروازہ کھول کر دیکھا تھا نا۔ بیگم کہتی ہے کہ آپ تو ڈاکٹر ہیں، آپ کو تو حقیقت پسند ہوتا چاہیے۔ آدھی رات ہو چکی ہے اور ابھی تک جاگ رہے ہیں داکٹر برہان نے کہا تھا کہ آپ کو مکمل آرام کی ضرورت ہے۔
اس ڈرامے سے آپ کون سا اخلاقی سبق اخذا کرتے ہیں؟
اس ڈرامے سے یہ سبْ ملتا ہے کہ انسان ہونے کے ناطے تمام انسان برابر ہیں، چاہے کوئی داکٹر ہے یا مریض، امیر یا غریب، حاکم ہے یا محکوم۔ لہٰذا انسان کو ہر حال میں دوسروے انسان کا خیال رکھنا چاہیے ورنہ ڈاکٹر زیدی کی طرح وہ ضمیر کی عدالت میں مجرم رہے گا اور ساری زندگی اسے ضمیر کی ملامت اور پھٹکار کا سامنے کرنا پڑیگا۔
اس ڈرامے سے وہ جملہ تلاش کریں، جس میں اس کا مرکزی خیال پوشیدہ ہے۔
میرے خیال میں ڈرامے کے جس جملے میں مرکزی خیال پوشیدہ ہے۔ وہ درج ذیل ہے۔
، میں انھیں بڑے میاں کا پاتا ہوں جس کا بیٹا اس رات ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مررہا تھا،
ڈاکٹر زیدی کو جس بوڑھے کی تلاش کی تھی اور جس کی وجہ سے اس کا ضمیر اسے ملامت کر رہا تھا وہ تو نہ مل سکا مگر ڈاکٹر بعہان کی شکل میں اس کا پوتا ڈاکٹر زیدی کو مل گیا جس کی وجہ سے اس کا ضمیر مطمئن ہو گیا کہ اس بوڑھے کا بیٹا بیماری کی وجہ سے مرا نہیں تھا بلکہ زندہ تھا جس کا بیٹا برہان ڈاکٹر زیدی کا علاج کر رہا تھا۔