نہم کلاس اردو قدرایاز سبق نمبر 11 مختصرسوال و جواب پنجاب بورڈ
9th Class Urdu Qadr e Ayaz lesson no 11 Short Question Answers Punjab Board
We are providing all Students from 5th class to master level all exams preparation in free of cost. Now we have another milestone achieved, providing all School level students to the point and exam oriented preparation question answers for all science and arts students.
After Online tests for all subjects now it’s time to prepare the next level for Punjab board students to prepare their short question section here. We have a complete collection of all classes subject wise and chapter wise thousands questions with the right answer for easy understanding.
Here we are providing complete chapter wise Urdu questions and Answers for the 9th class students. All the visitors can prepare for their 9th class examination by attempting below given question answers.
In this List we have included all Punjab boards and both Arts and Science students. These Boards students can prepare their exam easily with these short question answer section
Lahore Board 9th classes short questions Answer
Rawalpindi Board 9th classes short questions Answer
Gujranwala Board 9th classes short questions Answer
Multan Board 9th classes short questions Answer
Sargodha Board 9th classes short questions Answer
Faisalabad Board 9th classes short questions Answer
Sahiwal Board 9th classes short questions Answer
DG Khan Board 9th classes short questions Answer
Bahwalpur Board 9th classes short questions Answer
All above mention Punjab Boards students prepare their annual and classes test from these online test and Short question answer series. In coming days we have many other plans to provide all kinds of other preparation on our Gotest website.
How to Prepare Punjab Board Classes Short Question Answer at Gotest
- Just Open the desired Class and subject which you want to prepare.
- You have Green bars which are Questions of that subject Chapter. Just click on Bar, it slides down and you can get the right answer to those questions.
- You can also Rate those question Answers with Helpful or not to make it more accurate. We will review all answers very carefully and also update time to time.
Now you can start your preparation here below
مصنف جو بنگلہ ملا وہ اپنی کلاس میں انتخاب تھا۔ یہ بنگلہ ولسن صاحب نے خاص طور پر اپنے لے بنوایا تھا۔یہ بنگلہ کم و بیش دو ایکڑ قطعہ اراضی پر مشتمل تھا یعنی شروع ہی سے کافی طویل وعریض تھا۔ عمارت کے سامنے ایک وسیع باغ تھا۔ باغ میں جا بجا سر خ و سپید گلاب کے پھول اگے ہوئے تھے۔
سلیم میاں دن بھر اپنے بے فکر دوستوں کے ساتھ بنڈ منٹن کھلتے رہتے اور شام ہوتے ہی ٹی۔وی کے سامنے جم جاتے۔
سلیم میاں کی غیر ماجودگی میں اس کا ایک دوست امجد ملنے آیا تو علی بخش نے اسے بر آمدے ہی بٹھا دیا اور سادہ پانی کا گلاس پیش کیا۔جب سلیم میاں کو اس بات کا پتا چلا تو وہ علی بخش پر بر ہم ہوا کہ اس نے اس کے دوست کوگول کمرے میں صوفے پر کیوں نہیں بٹھایا اور فریج میں سے نکال کر کوکا کولا کی بوتل کیوں نہیں پیش کی۔
جب دیہاتی لڑکا پہلے دن اسکول گیا تو اس نے ننگے سر پر صافہ باندھ رکھا تھا۔ بدن پر کُرتا اور تہمد اور پاؤں میں پوٹھوری جوتا تھا۔ جب ما سٹر جی نے اسے شلوار پہننے کو کہا تو دھیمی آواز میں بلا کہ “شلوار تو لڑکیاں پہنتی ہیں۔
ماسٹر جی شکار کھیلنے کے شوقین تھے۔ ایک بار دسمبر کے مہینے میں وہ شکار کر تے کرتے چھوٹے چودھری کے گاؤں میں جا پہنچے اور انھوں نے وہ رات چھوٹے چودھری پاس بسر کرنے کا ارادہ کیا۔
ان دنوں گاؤں میں چائے بنانے کا رواج نہیں تھا۔چائے صرف مریضوں کو دی جاتی تھی۔کوئی چائے بنانا بھی نہیں جانتا تھا اس لیے ماسٹر جی کو آدھی کچی،آدھی پکی چائے پیش کی گئی جو بہت بد مزہ تھی۔ماسٹر جی نے ایک گھونٹ چائے پی کر باقی چائے رکھ دی۔
دیہاتی لڑکے کی کہا نی سن کر سلیم میاں حیران رہ گئے۔ اس کی آنکھوں میں ایک دیہاتی کے لیے محبت کی چمک تھی۔
مصنف کے بنگلے کا نداز ہر زاویے سے امیر انہ تھا جس کے مقابلے میں مصنف کے پاس کچھ زیادہ اثاثہ نہیں تھا پھر بھی اس نے اپنے بنگلے کو سجا نے کے لیے ہر کمرے کے لیے ایک قالین یا دری تو پیدا کر لی تھی۔اس کی علاوہ کچھ سامان قسطوں پر بھی خرید ا گیا تھا۔کچھ پرانا سامان لا کر رکھ لیا گیا تھا غرض مصنف نے بنگلے کی شایانِ شان کچھ نہ کچھ انتظام کر ہی لیا تھا کہ بنگلہ مزید خوب صورت دکھا ئی دے سکے۔
سلیم میاں کے دوست امجد صاحب آئے تو بر آمد ے میں ہی بیٹھ گئے۔سلیم میاں کو پتا تو وہ ملازم علی بخش پر ناراض ہوئے اور اسے دیہاتی کہہ دیا۔اسی بات کی شکایت لے کر علی بخش مصنف کے باپ کے پاس گیا تھا۔
جب مصنف نے دونوں کے بیانات سنے تو پتا چلا کہ سلیم اس لیے ناراض ہے کہ اس کے دوست امجد نے اسے دیہاتی سمجھا ہو گا اور علی بخش اس لیے ناراض ہے کہ سلیم میاں نے اس دیہاتی کہا ہے۔وجہ تنازع کچھ بھی نہیں تھی مصنف کے نزدیک یہ مسئلہ تو ایک پیالی چائے میں حال ہو سکتا تھا۔
چالیس سال پہلے پتلون پہننے کا رواج نہیں تھا۔اگر اس وقت ماسٹر جی خود بھی پتلون پہن لیتے تو شہر کے کتے انھیں ولایت پہنچا آتے۔
سارے سکول میں ایک سیکنڈ ماسٹر تھے جو سوٹ پہنتے تھے۔لڑکے انھیں جنٹل مین کہتے تھے انھوں نے لاہور میں تعلیم پائی تھی اور لاہور ہی کے رہنے والے تھے۔ ہر فقرے میں دو تین لفظ انگریزی کے بولتے تھے اور لڑکے رشک سے مرنے لگتے تھے۔آدمی خوش مزاج تھے۔ہاکی کے کھلاڑی تھے اور شکار کرنے کے شوقین تھے۔
گاؤں میں عام طور پر مہمانوں کو چوپال میں بٹھایا جاتاہے۔ماسٹر جی کو بھی چوپال میں ہی بٹھایا گیا چوں کہ ماسٹر جی نے پتلون پہن رکھی تھی اس لیے انھیں فرش پر بیٹھانے کی بجائے کے لیے رنگیلی چار پائی بچھادی گئی۔
ٹے چودھری نے اپنے کالج کے اخراجات ادا کرنے کے لیے تھوڑی سی زمین بیچ دی۔
جس چھوٹے چو دھری کی کہانی سلیم کے والد نے سلیم کو سنائی تھی وہ چھوٹے چو دھری خود سلیم کے والد صاحب تھے۔
علی بخش خلاف معمولی رونی صورت بنائے کمرے میں داخل ہوا۔کیونکہ سلیم کی ڈانٹ ڈپٹ سے اسے دکھ ہوا تھا۔
کر نل محمد خاں کا طرزِ تحریر سادہ اور دل چسپ ہے۔ان کی تحریروں کا اصل حسن سادگی اور خلوص ہے۔وہ بیتے ہوئے واقعات کو مزاح کے انداز میں پیش کرتے ہیں۔ان کی تحریروں میں انسانی کمزوریوں جھوٹ اور بناؤٹ پر تنقید ہوتی ہے۔
مصنف کو ایک اعلی قسم کا بنگلہ رہنے کو ملا جس کے بارے میں روایت تھی کہ ولسن روڈ کا یہ اکیلا بنگلہ ولسن صاحب نے خاص طور پر اپنے لیے بنوایا تھا۔
سلیم میں آکر نیل زادوں کی طرح اور ان کے ہمراہ بے فکری سے بیڈ منٹن کھیلتے اور سرشام ہی دوستوں کے ساتھ ٹیلی ویژن کے سامنے ہم جاتے کیا مجال جو کوئی غیر اس میں محفل یا شریک ہو
کیونکہ اس نے سلیم صاحب کے دوست امجد کو گول کمرے میں صوفے پر نہیں بیٹھایا تھا اور ریفریجریٹر سے نکال کر کوکا کولا پیش نہیں کیا تھا۔
دیہاتی لڑکے نے ننگے سر پر صافہ باندھ رکھا تھا بدن پر کرتا اور تحمد اور پاؤں میں اس کے پوٹھوہاری جوتا تھا۔
ماسٹر جی دسمبر میں شکار کرتے کرتے چودھری کے گاؤں میں جا پہنچے تھے۔
بڑی دوڑ دھوپ کے بعد حکیم صاحب کے گھر سے چائے حاصل کی اور ماسٹر جی کو چائے کی لسی بنا کر پیش کی گئی۔
دیہاتی لڑکی کی کہانی سن کر سلیم کی آنکھیں نم ہو گئیں کیونکہ اس کی آنکھوں میں ایک دیہاتی کے لئے محبت کی چمک تھی۔