نہم کلاس اردو پنچایت سبق نمبر 6 مختصرسوال و جواب پنجاب بورڈ
9th Class Urdu Panchayat lesson no 6 Short Question Answers Punjab Board
We are providing all Students from 5th class to master level all exams preparation in free of cost. Now we have another milestone achieved, providing all School level students to the point and exam oriented preparation question answers for all science and arts students.
After Online tests for all subjects now it’s time to prepare the next level for Punjab board students to prepare their short question section here. We have a complete collection of all classes subject wise and chapter wise thousands questions with the right answer for easy understanding.
Here we are providing complete chapter wise Urdu questions and Answers for the 9th class students. All the visitors can prepare for their 9th class examination by attempting below given question answers.
In this List we have included all Punjab boards and both Arts and Science students. These Boards students can prepare their exam easily with these short question answer section
Lahore Board 9th classes short questions Answer
Rawalpindi Board 9th classes short questions Answer
Gujranwala Board 9th classes short questions Answer
Multan Board 9th classes short questions Answer
Sargodha Board 9th classes short questions Answer
Faisalabad Board 9th classes short questions Answer
Sahiwal Board 9th classes short questions Answer
DG Khan Board 9th classes short questions Answer
Bahwalpur Board 9th classes short questions Answer
All above mention Punjab Boards students prepare their annual and classes test from these online test and Short question answer series. In coming days we have many other plans to provide all kinds of other preparation on our Gotest website.
How to Prepare Punjab Board Classes Short Question Answer at Gotest
- Just Open the desired Class and subject which you want to prepare.
- You have Green bars which are Questions of that subject Chapter. Just click on Bar, it slides down and you can get the right answer to those questions.
- You can also Rate those question Answers with Helpful or not to make it more accurate. We will review all answers very carefully and also update time to time.
Now you can start your preparation here below
جمن شیخ اور الگو چودھری میں دوستی کاآغازاُس زمانے میں ہوا جب یہ دونوں لڑکے جمن شیخ کے والدہ شیخ جمعراتی کے شاگرد تھے۔
پہلے پہل تو جمن شیخ کی بیوی فہمین نے خالہ کی خوب خاطر داریاں کیں مگر جب ہبہ نامے کی رجسٹری جمن شیخ کے نام ہو گئی تو فہمین نے آہستہ آہستہ سالن کی مقدار روٹیوں سے کم کر دی یعنی اس کے کھا نے پینے کے سامان میں بہت کمی کردی۔
الگو چودھری شیخ کا دوست تھا۔دونوں میں گاڑھی چھنتی تھی۔جب خالہ نے الگو چودھری کو پنچ مقرر کیا تو شیخ جمن کے دل میں ایک ہی خیال تھا کہ لگو چودھری ضرور اپنی دوستی کو نبھائے گا اور فیصلہ شیخ جمن کے حق میں ہو جائے گا۔یہی وجہ تھی کہ لگو چودھری کے پنچ مقرر ہو نے پر شیخ جمن بہت خوش ہوا۔
جب لگو چودھری نے فرقین کی بات سن لی اور جرح ختم کر لی تو اس نے کہا کہ “شیخ جمن کو کھیتوں معقول منافع حاصل ہو تا ہے۔ جمن شیخ خالہ جان کے ما ہوِار گزار ے کا بندوبست کرے بصورتِ دیگر ہبہ نابہ منسوخ ہو جائے گا۔
الگو چودھری کا فیصلہ سن کر شیخ جمن سناٹے میں آگیا۔ وہ اپنے احباب سے کہنے لگا”بھئی! اس زمانے میں دوستی کا معیار یہی ہے کہ جن پر بھر وسا کیا جائے وہی گردن پر چھری پھردیتا ہے۔ الگو چودھری کے فیصلہ نے الگو اور جمن کی دوستی کی جڑیں ہلا دیں۔ جمن شیخ ہر وقت الگو چودھری سے انتقام لینے کی سوچنے لگا۔
الگو چودھری کے پاس بیلوں کی ایک جوڑی تھی۔ پنچایت کے ماہ بعد اُن سے ایک بیل مر گیا۔چونکہ جمن شیخ نے بیل کو زہر نہ دلوادیا ہو مگروہ یہ بات کسی سے بر ملا کہہ نہیں سکتا تھا اور اکیلا بیل اس کے کسی کام کا نہیں تھااس لیے اس نے اپنا بیل سمجھوسیٹھ کے ہاتھ بیچ دیا۔
سمجھوسیٹھ نے نیا بیل پایا تو پاؤ ں پھیلائے۔ سمجھوسیٹھ یکہ گاڑی ہانکتے تھے۔ گاؤں میں سے گڑ،گھی بھرتے اور منڈی لے جا تے۔ منڈی سے تیل،نمک لاد کر لاتے اور گاؤں میں بیچتے تھے۔ جب ان کے ہاتھ نیا طاقت ور بیل آیا تو انھوں نے دن میں تین تین چار چار پھیرے منڈی کے لگانا شروع کر دیے۔نہ چارے کی فکر تھی اور نہ پانی کی۔انھیں تو بس پھیروں سے کام تھا۔ بیل کو منڈی لے جاتے وہاں کچھ سوکھا بھس ڈال دیا۔ ابھی بیل دَم بھی نہ لینے پاتا تھا کہ پھر جوت دیا۔ مہینے بھر میں بیل بے چارے کا برُا حال ہو گیا۔ہڈیاں نکل آئیں۔جب بیل سے چلنا مشکل ہوتا تو سمجھو سیٹھ اسے کوڑے سے پیٹتے۔ اسی طرح ایک دن بیل ایسا گر اکہ پھرنا اٹھا۔
سیٹھ سمجھو نیاالگو چودھری سے ایک بیل ایک ماہ کے وعدے پر اُدھار لیا تھامگر بیل سے زیادہ مشقت لینے کے وجہ سے بیل مر گیا۔ جب الگو چودھری نے سمجھو سیٹھ سے پیسوں کا مطالبہ کیا تو سمجھو سیٹھ آئیں بائیں شائیں کر نے لگا۔ الگو چودھری بھی غصے میں آ گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ جب میں نے بیل تمھارے ہاتھ فروخت کیا تو اسے کو ئی بیماری نہ تھی۔ وہ بالکل درست تھا جب کہ سمجھو سیٹھ کہتا تھا کہ تم نے مجھے دھوکے سے بیمار بیل دے دیا۔ دونوں میں اسا معاملے پر جھگڑا ہوا تو دونوں کے حامیوں نے انھیں پنچایت کا مشورہ دیا چناچہ دونوں نے اپنا جھگڑا پنچایت کے سامنے پیش کیا۔
جب شیخ جمن انصاف کی مسند پر بیٹھاتو اسے عظیم الشان زمہ داری کا احساس ہوا۔ اس نے سوچا کہ اس وقت انصاف کے معاملے میں میری نیت کو مطلق دخل نہ ہونا چا ہیے۔ مجھے انصاف کے تقاضوں کو نبھا نا چا ہیے۔تب اس نے دونوں طرف سے معاملات سن کر الگو چودھری اور سیٹھ سمجھو کے درمیان پورا پورا انصاف کیا۔جب رام دھن مصر نے کہا کہ سمجھو سیٹھ سے اصل معاملے سے کو ئی تعلق نہیں ہے اس لیے تاوان لینا درست نہیں اور جب سمجھو سیٹھ کے رشتے دار گو ڈر شاہ نے کہا کی سمجھو سیٹھ کو اپنے کیے کی سزامل چکی ہے اس لیے اس کے ساتھ کچھ رعایت کی جانی چاہیے توجمن شیخ نے اس بات سے بھی انکار کر دیا کیو ں کہ اس کا بھی اصل معاملے سے کو ئی تعلق نہیں تھا یعنی شیخ جمن نے فیصلہ سناتے ئے نہ کو ئی کمی کی اور نہ ہی زیادتی بلکہ اس نے عین انصاف سے کام لیتے ہوئے فیصلہ سنایا۔
الگو چودھری تعلیم کے مقابلے میں اُستاد کی خدمت پر زیادہ بھر وسا کرتے تھے۔وہ کہا کرتے تھے کہ بس کامیابی کے لیے استاد کی دعا چاہیے ہے۔جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ فیض سے ہی ہو تا ہے۔
شیخ جمعراتی تازیانے کے زیادہ قائل تھے۔ان کا خیال تھا کہ مار کے ڈر سے بچے زیادہ پڑھتے ہیں۔وہ جمن کو سید ھا رکھنے کے لیے اس پر تازیانے کا بے دریغ استعمال کرتے تھے۔
جب خالہ نے دیکھا کہ جمن اور اس کی بیوی ان کے کھانے پینے کا زرا بھی خیال نہیں رکھتے ہیں اور اسے ماہوار خرچ دینے پر بھی آمادہ نہیں ہیں ۔
جمن شیخ اور الگو چوہدری میں دوستی کا آغاز اُس زمانے میں ہوا جب یہ دونوں لڑکے جمن شیخ کے والد شیخ جمعراتی کے شاگر د تھے۔
پہلے پہل تو جمن شیخ کی بیوی فہمین نے خالہ کی خوب خاطر داریاں کیں مگر جب ہبہ نامے کی رجسٹری جمن شیخ کے نام ہوگئی تو فہمین نے آہستہ آہستہ سالن کی مقدار روٹیوں سے کم کر دی یعنی اس کے کھانے پینے کے سامان میں بہت کمی کردی۔
الگو چوہدری شیخ جمن کا دوست تھا۔ دونوں میں گاڑھی چھنتی تھی۔ جب خالہ نے الگو چوہدری کو پنچ مقرر کیا تو شیخ جمن کے دل میں ایک ہی خیال تھا کہ الگو چودہدری ضرور اپنی دوستی کو نبھائے گا اور فیصلہ جمن شیخ کے حق میں ہو جائے گا۔ یہی وجہ تھی کہ الگو چوہدری کے پنچ مقرر ہونے پر شیخ جمن بہت خوش ہوا۔
جب الگو چوہدری نے فریقین کی بان سن لی اور جرح ختم کرلی تو اس نے کہا کہ شیخ جمن کو کھیتوں سے معقول منافع حاصل ہوتا ہے۔ جمن شیخ خالہ جان کے ماہوار گزارے کا بندوبست کرے بصورت دیگر ہبہ نامہ منسوخ ہو ئے گا۔
الگو چوہدری کا فیصلہ سن کر شیخ جمن سناٹے میں آگیا۔ وہ اپنے احباب سے کہنے لگا بھئی! اس زمانے میں دوستی کا معیار یہی ہے کہ جن پر بھروسا کیا جائے وہی گردن پر چھری پھیر دیتا ہے۔ الگو چوہدری کے اس فیصلے نے الگو اور جمن کی دوستی کی جڑیں ہلا دیں۔ جمن شیخ ہر وقت الگو چوہدری سے انتقام لینے کی سوچنے لگا۔
الگو چوہدری کے پاس بیلوں کی ایک جوڑی تھی۔ پنچایت کے ایک ماہ بعد اُن میں سے ایک بیل مر گیا۔ چونکہ جمن شیخ، الگو چوہدری سے دشمنی رکھتا تھا۔ اس لیے الگو چوہدری کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ کہیں جمن شیخ نے بیل کو زہر نہ دلو ادیا ہو مگر وہ یہ بات کسی سے برملا کہہ نہیں سکتا تھا اور اکیلا بیل اس کے کسی کام کا نہیں تھا۔ اس لیے اس نے اپنا بیل سمجھو سیٹھ کے ہاتھ بیچ دیا۔
سمجھو سیٹھ یکہ گاڑی ہانکتے تھے گاؤں سے گڑ گھی منڈی لے جاتے جبکہ منڈی سے تیل نمک لاکر گاؤں میں بیچتے تھے۔ جب نیا اور طاقتور بیل ان کے ہاتھ آیا تو انہوں نے دن میں کئی پھیرے لگانا شروع کر دیے انھیں اس کے چار ے وغیرہ کی فکر نہ تھی ابھی بیل دم بھی لینے نہ پاتا کہ اسے پھر جوت لیتے مہینا بھر میں بیل کا برا حال ہو گیا۔ جب بیل تھک جاتا تو سمجھو سیٹھ اسے کوڑے سے پیٹ ڈالتے۔ اس لا پروائی اور تشدد سے بیل مر گیا۔
سیٹھ سمجھو نے الگو چوہدری سے ایک بیل ایک ماہ کے اُدھار پر لیا تھا مگر اس سے زیادہ مشقت لینے کے باعث بیل مر گیا۔ الگو چوہدری نے رقم کا مطالبہ کیا تو سمجھو سیٹھ بولا کہ تم نے مجھے دھوکہ سے بیمار بیل دیا تھا جبکہ الگو چوہدری کا کہنا تھا کہ فروخت کے وقت بیل بالکل تندرست تھا۔ جب جھگڑا طول پکڑ گیا تو دونوں نے اپنے اپنے حامیوں کے مشورہ سے معاملہ پنچایت میں پیش کر دیا۔
جب شیخ جمن مسند انصاف پر بیٹھا تو ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے سوچا کہ مجھے انصاف کے تقاضوں کو نبھانا چاہیے اس نے متعلقہ دونوں افراد کا موقف سنا۔ جب رام دھن مصر نے کہا، سمجھو سیٹھ سے اصل رقم کے ساتھ تاوان بھی لیا جائے تو شیخ جمن نے کہا کہ اس کا معاملے سے کوئی تعلق نہیں اور جب گودڑ شاہ نے کہا کہ سمجھو سیٹھ سے رعایت کی جائے تو بھی شیخ جمن نے انکار کر دیا۔ شیخ جمن نے انصاف کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہو مبنی برانصاف فیصلہ سنایا۔