اسلامک جنرل نالج (اردو) آن لائن
اسلامی معلومات
اسلامک آن لائن جنرل نالج (اردو میں)– امتحانات اور انٹرویوز کے لیے
اسلامیات کے مضامین میں کامیابی کے لیے درست، مختصر اور جامع معلومات کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہم نے یہ صفحہ ترتیب دیا ہے جس میں “مکمل اسلامی معلومات” اردو زبان میں پیش کی گئی ہیں۔ یہ معلومات خاص طور پر ان طلباء، امیدواروں، اور دینی شوق رکھنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہیں جو مختلف امتحانات، انٹرویوز، داخلہ ٹیسٹ، یا دیگر کمپیٹیٹیو امتحانات کی تیاری کر رہے ہیں۔
اس صفحے میں شامل تمام نکات ایک لائن پر مبنی، بار بار امتحانات میں آنے والے سوالات اور مکمل دینی عقائد و عبادات کا احاطہ کرتے ہیں۔ یہ معلومات نہ صرف یاد رکھنے میں آسان ہیں بلکہ مختصر ہونے کے باوجود جامع اور مستند بھی ہیں
اسلام کی بنیادی معلومات کو موضوع وار انداز میں یہاں پڑھیں تاکہ آپ کو نہ صرف بہتر سمجھ آئے بلکہ ٹیسٹ یا انٹرویو میں بھی کامیابی حاصل ہو۔
بالکل! نیچے آپ کے لیے ایک جامع انداز میں اسلامی معلومات اردو زبان میں ترتیب دی گئی ہیں۔ اس میں وہ تمام نکات شامل ہیں جو عام طور پر امتحانات، کوئز، اور دینی علم کے بنیادی ذخیرے میں بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ ہر سیکشن الگ عنوان کے تحت ہے تاکہ یاد کرنا آسان ہو
جس موضوع کو پڑھنا ہو، اُس کے ٹیب پر کلک کریں
اسلام کے لغوی معنی اطاعت، فرمانبرداری کے ہیں۔ قرآن میں ان ہی معانی کے لیے اسلام کا نام استعمال ہوا ہے، یعنی انسان کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری جو وہ اپنے رب کے لیے کرتا ہے۔ اسلام دین فطرت ہے۔ اسلامی تعلیمات کے ذریعے انسان کی اخلاقی، سماجی اور روحانی اصلاح کی جاتی ہے۔ اسلام کے استعمال کا مطلب اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینا ہے۔اسلام کی ابتدائی تعلیمات توحید پر مبنی ہیں۔ حدیث شریف میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔” اسلام ہمیں حقوق العباد اور حقوق اللہ کی تعلیم دیتا ہے۔
اسلام کے بنیادی عقائد پانچ ہیں۔ یہ عقائد ہر مسلمان پر فرض ہیں۔ اسلامی نظام زندگی کے تمام شعبوں میں ان عقائد کا اثر ہوتا ہے۔ ان عقائد پر کامل یقین رکھنا اسلام کے دائرے میں داخل ہونے کی پہلی شرط ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عقائد کی وضاحت اپنے قول و فعل سے کی۔
اسلام کے دو اہم حصے ہیں: پہلا حصہ عقائد اور دوسرا حصہ اعمال۔ عقائد کے بغیر کوئی عمل قابل قبول نہیں۔
Important islamic Information
اسلام کا لغوی معنی ہے “سلامتی اور اطاعت”۔
اسلام کے ماننے والے کو مسلمان کہتے ہیں۔
اسلام کے پانچ بنیادی ارکان ہیں۔
قرآن اسلام کی آخری اور مکمل کتاب ہے۔
نبی کریم ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں۔
اسلام کی ابتدا مکہ مکرمہ سے ہوئی۔
اسلام کا پہلا خلیفہ حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے۔
اسلامی سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے۔
پہلا اسلامی ریاست مدینہ منورہ میں قائم ہوئی۔
اسلامی قانون کو شریعت کہا جاتا ہے۔
اسلام کا نظام عدل قرآن اور سنت پر مبنی ہے۔
اسلام میں بھائی چارہ اور عدل پر زور دیا گیا ہے۔
اسلام کے مطابق سب انسان برابر ہیں۔
اسلام کا پہلا معرکہ غزوۂ بدر تھا۔
اسلام میں سود لینا حرام ہے۔
اسلام کا پہلا معاہدہ “میثاقِ مدینہ” تھا۔
اسلام کی پہلی ہجرت حبشہ کی طرف ہوئی۔
مسلمانوں کی پہلی قبلہ بیت المقدس تھا۔
اسلام نے غلامی کا خاتمہ کیا۔
اسلام میں علم حاصل کرنا فرض ہے۔
اسلام عورتوں کو عزت دیتا ہے۔
اسلام کے مطابق نجات کا راستہ اللہ کی اطاعت ہے۔
اسلام کا مکمل ضابطۂ حیات قرآن ہے۔
اسلام آخری دین ہے، اس کے بعد کوئی دین قابلِ قبول نہیں۔
اسلام دینِ فطرت ہے۔
اسلام انسانیت کی فلاح کا دین ہے۔
اسلام امن، رواداری اور اعتدال کا درس دیتا ہے۔
اسلام کا لغوی معنی ہے “سلامتی، اطاعت، جھک جانا”۔
اسلام کے 5 بنیادی ارکان ہیں: کلمہ، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج۔
قرآن میں دین کا نام “اسلام” رکھا گیا (آل عمران: 19)۔
اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے (آل عمران: 85)۔
حضرت آدمؑ سے لے کر نبی ﷺ تک تمام انبیاء کا دین اسلام تھا۔
نبی کریم ﷺ آخری نبی اور اسلام مکمل دین ہے۔
سورۃ مائدہ آیت 3 میں اسلام کی تکمیل کا اعلان ہوا۔
اسلام کا آغاز مکہ مکرمہ سے ہوا۔
سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے مرد حضرت ابوبکرؓ تھے۔
اسلام میں مساوات، عدل اور اخوت پر زور دیا گیا ہے۔
اسلامی ریاست کا قیام مدینہ منورہ میں ہوا۔
پہلا اسلامی معاہدہ “میثاقِ مدینہ” کہلاتا ہے۔
اسلام کی پہلی ہجرت حبشہ کی طرف ہوئی۔
اسلام نے غلامی، نسل پرستی، سود، شرک کا خاتمہ کیا۔
اسلام میں سب انسان برابر ہیں (لا فضل لعربی علی عجمی…)
اسلام کے مطابق علم حاصل کرنا فرض ہے۔
اسلامی مہینے کا آغاز محرم سے ہوتا ہے۔
سب سے پہلا خلیفہ حضرت ابوبکرؓ، دوسرا حضرت عمرؓ تھے۔
اسلام میں سود، رشوت، شراب سخت حرام ہیں۔
اسلامی قانون قرآن و سنت پر مشتمل ہے۔
اسلامی اخلاق کا نمونہ نبی ﷺ کی سیرت ہے۔
اسلام کا پیغام قرآن و حدیث کے ذریعے محفوظ ہے۔
اسلام کی پہچان ارکانِ اسلام سے ہوتی ہے۔
اسلام آخرت میں کامیابی کا واحد راستہ ہے۔
اسلام نے عورت کو ماں، بیٹی، بہن، بیوی کے ہر روپ میں عزت دی۔
.
لفظ توحید، وحدت سے ماخوذ ہے۔ ایمان کے لغوی مفہوم سے توحید کا مطلب اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا اور اس پر یقین رکھنا ہے۔ یہ عقیدہ اسلامی تعلیمات کا بنیادی جزو ہے۔توحید کی اقسام:
توحید کی اقسام
توحید فی الذات
توحید فی الصفات
توحید فی افعال
توحید فی حُکم
Important Toheed Information
توحید کا مطلب ہے اللہ کو ہر پہلو سے ایک ماننا۔
توحید تین اقسام پر مشتمل ہے: ربوبیت، الوہیت، اسماء و صفات۔
توحید ربوبیت کا مطلب ہے: اللہ ہی خالق، مالک اور رازق ہے۔
توحید الوہیت کا مطلب ہے: عبادت صرف اللہ کے لیے ہو۔
توحید اسماء و صفات کا مطلب ہے: اللہ کی صفات کو بغیر تشبیہ و تعطیل ماننا۔
قرآن کا بنیادی پیغام توحید ہے۔
توحید کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔
توحید کے اقرار کے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں۔
سورۃ الاخلاص کو توحید کا خلاصہ کہا جاتا ہے۔
کلمہ طیبہ “لا الٰہ الا اللہ” توحید کا اعلان ہے۔
شرک توحید کی ضد اور سب سے بڑا گناہ ہے۔
حضرت ابراہیمؑ کو امام الموحدین کہا جاتا ہے۔
حضرت محمد ﷺ کی دعوت کا آغاز بھی توحید سے ہوا۔
تمام انبیاء نے سب سے پہلے توحید کی دعوت دی۔
قرآن میں سینکڑوں آیات توحید پر مشتمل ہیں۔
توحید ہی عبادت کا اصل روح ہے۔
توحید سے انسان اللہ کا سچا بندہ بنتا ہے۔
توحید انسان کو غیراللہ کی بندگی سے بچاتی ہے۔
توحید آخرت میں نجات کی بنیاد ہے۔
بغیر توحید کے کوئی نبی، کوئی عمل فائدہ نہیں دیتا۔
سورۃ انعام، سورۃ اعراف، سورۃ بقرہ میں توحید کا مفصل بیان ہے۔
توحید کا انکار کفر ہے۔
توحید ہی انبیاء اور کفار کے درمیان بنیادی اختلاف رہا ہے۔
توحید قرآن کا پہلا سبق ہے (الحمد للہ رب العالمین)۔
توحید دنیا و آخرت کی کامیابی کی کنجی ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے دل سے “لا الٰہ الا اللہ” کہا، وہ جنتی ہے۔
اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنا اور اُسے وحدہٗ لا شریک سمجھنا، توحید کہلاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی ذاتِ مقدس میں کسی کو شریک ٹھہرانا یا کسی اور کو اس کے برابر سمجھ کر عبادت کرنا شرک کہلاتا ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں بُت پرستی بہت عام تھی۔ سورۃ لقمان کی آیت نمبر 13 میں شرک کی سخت مذمت بیان کی گئی ہے، جس کا ترجمہ ہے:
’’بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو شرک سے بچنے کا حکم دیا ہے۔
Important Information about Shirk
شرک اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے کو کہتے ہیں۔
شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔
شرک کو کبھی معاف نہیں کیا جائے گا (اگر توبہ کے بغیر مرے)۔
قرآن میں سب سے سخت وعید شرک پر آئی ہے۔
شرک ایمان کو ختم کر دیتا ہے۔
شرک توحید کی ضد ہے۔
مشرک جہنم میں ہمیشہ رہے گا۔
شرک کی کئی اقسام ہیں: جَلی، خَفی، عبادت، اطاعت، محبت کا شرک۔
تعویذ، نجومی، جادوگر سے عقیدہ رکھنا شرک میں آ سکتا ہے۔
شرک انبیاء کرام کے مشن کی سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔
بت پرستی شرک کی سب سے عام شکل ہے۔
عبادت میں کسی کو شریک کرنا شرک ہے۔
دعا، نذر، سجدہ صرف اللہ کے لیے ہو، ورنہ شرک ہوگا۔
وسیلہ بنانا اگر عقیدہ شریک کا ہو تو شرک کہلاتا ہے۔
شرک سے دل سخت اور ہدایت ختم ہو جاتی ہے۔
شرک جہالت اور بے علمی کی پیداوار ہے۔
شرک روحانی بیماریوں میں سب سے خطرناک ہے۔
شرک کا رد قرآن کی ہر سورت میں کہیں نہ کہیں موجود ہے۔
نمرود، فرعون اور ابو جہل شرک کی علامت بنے۔
حضرت ابراہیمؑ نے اپنی قوم کو شرک سے روکا۔
شرک نفس پرستی، تعصب اور غرور کا نتیجہ ہے۔
شرک ہی سب سے پہلا جرم ہے جس سے کفر شروع ہوا۔
شرک اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی توہین ہے۔
شرک کسی نبی یا ولی سے مدد مانگنے میں بھی ہو سکتا ہے۔
شرک انسان کو جہنم کا مستقل رہائشی بناتا ہے۔
عقیدے میں معمولی سا شرک بھی ایمان کے لیے خطرہ ہے۔
ارکانِ اسلام سے مراد وہ بنیادی ستون ہیں جن پر دینِ اسلام کی عمارت قائم ہے۔ یہ مجموعی طور پر پانچ ہیں
کلمہ (توحید و شہادت)
نماز
روزہ
زکوٰۃ
حج
Important information about Arkaan e Islam
ارکانِ اسلام پانچ ہیں: کلمہ، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج۔
کلمہ، ایمان کا اقرار ہے۔
نماز، دین کا ستون ہے۔
روزہ، صبر اور تقویٰ کی مشق ہے۔
زکوٰۃ، مال کی پاکیزگی اور غریبوں کا حق ہے۔
حج، زندگی میں ایک بار صاحبِ استطاعت پر فرض ہے۔
ارکانِ اسلام کا ذکر حدیثِ جبرائیل میں ہے۔
نبی ﷺ نے ارکانِ اسلام کو دین کی بنیادیں فرمایا۔
ارکانِ اسلام، عملی ایمان کی علامت ہیں۔
کلمہ پڑھنے سے مسلمان ہوتا ہے۔
نماز کا انکار کفر ہے۔
زکوٰۃ ادا نہ کرنا سخت گناہ ہے۔
روزہ، تقویٰ پیدا کرتا ہے۔
حج، اتحادِ امت کی عظیم مثال ہے۔
پانچوں ارکان اللہ اور بندے کے تعلق کو مضبوط کرتے ہیں۔
نماز دن میں پانچ بار فرض ہے۔
زکوٰۃ ہر سال مالدار مسلمان پر فرض ہے۔
روزہ رمضان المبارک میں فرض ہے۔
حج، ذوالحجہ میں مخصوص ایام میں کیا جاتا ہے۔
ارکانِ اسلام کی تکمیل دین کی علامت ہے۔
بغیر ارکان کے اسلام ادھورا رہتا ہے۔
نماز فرض ہونے کے بعد سب سے پہلا سوال قبر میں اسی کا ہوگا۔
زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے کو قیامت کے دن عذاب ہوگا۔
ارکانِ اسلام پر عمل، ایمان کی سچائی کی دلیل ہے۔
اسلام کی پہچان ارکانِ اسلام سے ہوتی ہے۔
ارکانِ اسلام انسان کو اللہ کا سچا بندہ بناتے ہیں
شہادت کے معنی ’’گواہی دینا‘‘ ہیں۔ جب مسلمان کلمۂ توحید و شہادت ادا کرتا ہے تو وہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اسی لیے اسلام کا پہلا رکن، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دینا ہے۔
کلمہ کی اقسام
(عموماً درج ذیل کلمات کا ذکر کیا جاتا ہے)
کلمۂ شہادت
کلمۂ توحید
درود شریف
چہل کلمہ
چہل حدیث
استغفار
نماز دینِ اسلام میں بے حد اہمیت رکھتی ہے اور اس کا حکم قرآنِ پاک میں موجود ہے۔ یہی عمل مسلمان اور غیرمسلم میں نمایاں فرق کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہونا ایمان کو مضبوط کرتا ہے۔ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ روزانہ پانچ وقت کی نماز ادا کرے۔ نماز نور اور اطمینانِ قلب کا ذریعہ ہے۔
نمازِ تراویح
رمضان میں عشا کی نماز کے بعد بیس رکعت نمازِ تراویح ادا کی جاتی ہے۔
نمازِ جمعہ
جمعہ کے دن خطبہ سننے کے بعد جو نماز دو رکعت واجب ہے، وہ ہر مسلمان پر فرض ہے۔
نمازِ جنازہ
جب کسی مسلمان کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس کے لیے نمازِ جنازہ پڑھنا واجب ہو جاتا ہے۔ یہ نماز فرضِ کفایہ ہے۔
نمازِ عیدین
ہر سال عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پر دو رکعت نمازِ عید پڑھی جاتی ہے۔
نفل نمازیں
فرض نمازوں کے علاوہ جتنی بھی نمازیں پڑھی جائیں، اُنھیں نفل نمازیں کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ مخصوص مواقع پر بھی نفل نمازیں ادا کی جاتی ہیں، جیسے اشراق، چاشت، تہجد اور اوابین۔ یہ نوافل اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے پڑھی جاتی ہیں۔
نمازِ استسقاء
استسقاء کا لغوی معنی پانی طلب کرنا ہے۔ اصطلاحِ شریعت میں خشک سالی کے دوران مخصوص کیفیت سے اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا مانگنے کو نمازِ استسقاء کہتے ہیں۔ یہ سنتِ رسولؐ ہے۔ جب طویل عرصے تک بارش نہ ہو یا خشک سالی کی کیفیت ہو تو یہ نماز ادا کی جاتی ہے۔ اس کے لیے بعض طریقے اور شرائط بھی ہیں۔
سجدۂ سہو
بسا اوقات نماز کی رکعتوں یا ارکان میں بھول چوک ہو جائے تو نماز کے آخری قعدے میں دو سجدے کیے جاتے ہیں، جنھیں سجدۂ سہو کہتے ہیں۔
سجدۂ تلاوت
قرآنِ مجید میں چند ایسی آیات ہیں جن کی تلاوت یا سماعت کے دوران سجدہ واجب ہو جاتا ہے۔ اسے سجدۂ تلاوت کہتے ہیں۔
وضو
نماز سے پہلے مخصوص طریقے سے بدن کے کچھ حصوں کو پانی سے دھونے کا عمل وضو کہلاتا ہے۔
وضو کے ضروری ارکان
چہرہ دھونا
پیشانی کے بالوں سے ٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان سے دوسرے کان تک چہرہ دھونا۔
دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھونا۔
سر کا مسح کرنا۔
دونوں پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھونا۔
فجر: 2 رکعت سنت + 2 رکعت فرض = کل 4 رکعات
ظہر: 4 رکعت سنت + 4 رکعت فرض + 2 رکعت نفل = کل 12 رکعات
عصر: 4 رکعت سنت + 4 رکعت فرض = کل 8 رکعات
مغرب: 3 رکعت فرض + 2 رکعت سنت + 2 رکعت نفل = کل 7 رکعات
عشاء: 4 رکعت سنت + 4 رکعت فرض + 2 رکعت سنت + 2 رکعت نفل + 3 رکعت وتر + 2 رکعت نفل = کل 17 رکعات
نمازِ قصر
جب کوئی شخص شرعی مسافت کا سفر اختیار کرے تو ظہر، عصر اور عشاء کی چار رکعت والی فرض نماز کو دو رکعت تک مختصر پڑھ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سنتیں اور نوافل پڑھنا اختیاری ہوتا ہے۔ اسے ’’نمازِ قصر‘‘ کہتے ہیں۔
Imporatnt Points about Nimaz
نماز معراج کی رات 10 نبوی میں فرض ہوئی۔
قرآن میں نماز کا حکم 700 سے زائد بار آیا ہے۔
نماز دین کا ستون (سُتونُ الدین) ہے۔
روزِ قیامت سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا۔
روزانہ پانچ نمازیں فرض ہیں۔
نمازِ فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشاء فرض نمازیں ہیں۔
قرآن میں نماز کے لیے لفظ “اقامتِ صلاۃ” استعمال ہوا ہے۔
سورۃ مومنون میں نماز پڑھنے والوں کی تعریف کی گئی ہے۔
سب سے پہلے نماز حضرت موسیٰؑ نے ادا کی۔
نماز کا انکار کفر ہے (اجماعی رائے)۔
قصر نماز سفر کی حالت میں پڑھی جاتی ہے۔
نمازِ جمعہ کا خطبہ فرض ہے۔
نماز کی رکعتیں قرآن و سنت سے ثابت ہیں۔
سجدۂ تلاوت قرآن کی مخصوص آیات پر واجب ہوتا ہے۔
پہلی نماز جو فرض ہوئی فجر تھی۔
جنازے کی نماز فرض کفایہ ہے۔
نمازِ استسقاء بارش کے لیے پڑھی جاتی ہے۔
نماز کی سب سے بڑی فضیلت: برائیوں سے بچاتی ہے (القرآن)۔
نماز باجماعت کا اجر 27 گنا زیادہ ہے۔
حضرت بلالؓ پہلے مؤذن تھے۔
نمازِ وتر واجب ہے۔
نماز میں تکبیر تحریمہ فرض ہے۔
نماز میں قیام، رکوع، سجدہ، قعدہ فرض ہیں۔
عورتوں کے لیے اذان ضروری نہیں۔
نمازِ تہجد سنتِ مؤکدہ ہے۔
کسی کام سے رکنے یا اپنے کسی حرکت اور چیز سے رکنے کو عربی زبان میں ’’صوم‘‘ کہتے ہیں۔ روزہ بھی عربی میں صوم کے معنی میں ہے۔ اسلام میں روزہ کے معروف معنی یہ ہیں کہ طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک اپنے آپ کو کھانے پینے اور دیگر تمام خلافِ شرع کاموں سے روکے رکھنا۔
روزہ ہر مسلمان پر فرض ہے جو بالغ اور عاقل ہو۔ روزہ کا سب سے بڑا مقصد یہی ہے کہ انسان انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے ایمان اور اخلاق کو بہتر کرے۔ روزہ رکھنے سے انسان اپنے اندر صبر اور برداشت کی قوت پیدا کرتا ہے۔
روزہ میں صبح صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک کچھ کھایا پیا نہیں جاتا۔ اگر کوئی مسلمان بغیر کسی عذر کے جان بوجھ کر روزہ توڑ دے تو اس کے لیے کفارہ ادا کرنا لازم ہے۔ روزہ کے اختتام پر افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ افطار کے وقت کی دعا میں یہ التجا کی جاتی ہے کہ ’’اے اللہ! اس روزہ کو قبول فرما۔‘‘ روزہ انسان کو پرہیزگاری کی راہ دکھاتا ہے۔ روزہ کے دوران جھوٹ، غیبت، حسد، بغض اور دیگر گناہوں سے بچنا ضروری ہے۔ روزہ روحانی اور جسمانی پاکیزگی کا ذریعہ ہے۔ اس سے بندہ اپنے خالق سے قربت حاصل کرتا ہے۔ روزہ ایمان کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔
Important Information about Roza
روزہ 2 ہجری میں فرض ہوا۔
روزہ رمضان کے مہینے میں فرض ہے (سورۃ البقرہ)۔
قرآن میں روزہ کا مقصد “تقویٰ” بتایا گیا ہے۔
روزے کی نیت رات میں کرنا ضروری ہے۔
روزہ فجر سے مغرب تک رکھا جاتا ہے۔
روزے میں جھوٹ، غیبت، گالی منع ہے۔
حالتِ سفر اور بیماری میں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے۔
روزہ قضا اور کفارہ دونوں صورتوں میں ہوتا ہے۔
روزہ توڑنے کا کفارہ: مسلسل 60 روزے یا غلام آزاد کرنا یا 60 مسکینوں کو کھانا کھلانا۔
روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک سے زیادہ پسند ہے۔
سحری کرنا سنت اور افطاری میں جلدی کرنا مستحب ہے۔
اعتکاف رمضان کے آخری عشرے میں کیا جاتا ہے۔
روزہ چھپے میں صرف اللہ کے لیے ہوتا ہے۔
روزے میں انجکشن اور نس میں پانی سے اختلافی مسائل ہیں۔
حالتِ جنابت میں روزہ ہو جاتا ہے۔
روزہ دار کے لیے مسواک جائز ہے۔
حالتِ حیض میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔
روزہ کی فرضیت کا ذکر سورۃ البقرہ آیت 183 میں ہے۔
سب سے پہلے حضرت آدمؑ نے روزہ رکھا تھا (روایتی قول)۔
روزے کو عربی میں “صوم” کہتے ہیں۔
رمضان کے مہینے کو قرآن میں “شہرُ رمضان” کہا گیا ہے۔
روزہ آخرت میں شفاعت کرے گا (حدیث)۔
عرفہ اور عاشورہ کا روزہ غیر رمضان میں افضل ہے۔
افطار میں دعا “اللہم لک صمت” پڑھنا مسنون ہے۔
روزہ دار کا دعا مانگنا قبول ہوتا ہے۔
اسلامی عبادات کا تیسرا رکن زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کے لغوی معنی پاکی، بڑھنے اور نشوونما کے ہیں۔ دینِ اسلام میں اصطلاحی طور پر زکوٰۃ سے مراد اپنے مال میں سے مخصوص حصّہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ زکوٰۃ ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر فرض ہے۔ یہ مال کی پاکیزگی کا ذریعہ ہے اور اسلام سے اخوت اور ہمدردی کا ثبوت بھی۔ زکوٰۃ کا حکم قرآن و سنت میں واضح طور پر موجود ہے۔
مصارفِ زکوٰۃ | |
---|---|
پہلا مصرفِ زکوٰۃ | فقراء |
دوسرا مصرفِ زکوٰۃ | مساکین |
تیسرا مصرفِ زکوٰۃ | عاملینِ زکوٰۃ |
چوتھا مصرفِ زکوٰۃ | غلاموں کی آزادی |
پانچواں مصرفِ زکوٰۃ | قرض |
چھٹا مصرفِ زکوٰۃ | فی سبیل اللہ |
ساتواں مصرفِ زکوٰۃ | مسافر |
نصابِ زکوٰۃ
نقدی وغیرہ پر زکوٰۃ کے لیے سونے یا چاندی کی موجودہ قیمت ہی دوسروں پر بھی صادق آئے گی۔
سونا اور چاندی کے لیے زکوٰۃ کا نصاب یہ ہے
سونا: 7/1⁄2 تولے
چاندی: 52/1⁄2 تولے
Important Information about Zakat
زکوٰۃ 2 ہجری میں فرض کی گئی۔
زکوٰۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔
زکوٰۃ کا مطلب ہے: “پاک کرنا، بڑھانا”۔
سونے پر زکوٰۃ کا نصاب 7.5 تولہ (87.48 گرام) ہے۔
چاندی پر نصاب 52.5 تولہ (612.36 گرام) ہے۔
زکوٰۃ کی شرح کل مال کا 2.5% ہے۔
زکوٰۃ ہر قمری سال مکمل ہونے پر فرض ہوتی ہے۔
زکوٰۃ ان لوگوں پر فرض ہے جو صاحبِ نصاب ہوں۔
قرآن میں زکوٰۃ کا حکم 32 مرتبہ آیا ہے۔
زکوٰۃ کا انکار کفر کے قریب ہے۔
زکوٰۃ نہ دینے والے پر قیامت میں سخت عذاب ہے۔
زکوٰۃ کے 8 مستحقین سورہ توبہ آیت 60 میں بیان کیے گئے ہیں۔
حضرت ابوبکرؓ نے زکوٰۃ نہ دینے والوں سے قتال کیا۔
زکوٰۃ سے دلوں کا میل صاف ہوتا ہے (توبہ)۔
زکوٰۃ قرآن و سنت دونوں سے ثابت ہے۔
زکوٰۃ فطر علیحدہ واجب ہے (عید الفطر سے پہلے)۔
زکوٰۃ قرضدار، مسکین، فقیر، مسافر کو دی جا سکتی ہے۔
زکوٰۃ سید (اہلِ بیت) کو نہیں دی جا سکتی۔
زکوٰۃ میں نیت فرض ہے۔
زکوٰۃ سے معیشت میں توازن آتا ہے۔
زکوٰۃ نماز کے ساتھ ساتھ فرض ہے (اقیموا الصلوۃ و آتوا الزکوٰۃ)۔
زکوٰۃ بچوں، پاگل، یا نابالغ پر فرض نہیں۔
زکوٰۃ ادا کرنے سے مال پاک ہوتا ہے۔
زکوٰۃ کے بغیر مال وبال بن جاتا ہے۔
زکوٰۃ فرض عبادت ہے، صدقہ نفلی۔
اسلام کا پانچواں اور آخری رکن حج ہے۔ حج انفرادی عبادت کا ارادہ ہے۔ شریعت میں یہ کہ اگر انسان تندرست ہو اور اس کے پاس اتنے وسائل ہوں کہ وہ اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر حج کے سفر پر جا سکے تو اس پر حج فرض ہے۔ حج ہر بالغ اور عاقل صاحبِ استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے۔ حج پر خرچ کی رقم کو خرچ کرتے ہوئے ذرا بھی بوجھ محسوس نہ کرنا چاہیے۔ اس سے قربِ الٰہی اور معرفتِ حق نصیب ہوتی ہے۔ حج ایک بندگی کا سفر ہے جس میں انسان اپنی زندگی کا ایک نیا آغاز کرتا ہے۔
لوگوں کو چاہیے کہ اگر ممکن ہو تو وہ اس فریضہ کی طرف سے استطاعت پائیں اور عمر بھر انتظار نہ کریں کہ کہیں ان کا انتقال نہ ہو جائے۔ حج کے سلسلے میں بہت سی احادیثِ مبارکہ ہیں جن میں حج کے فضائل اور ثواب کا ذکر ہے۔ وہاں کی برکات اور فیوضات کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی انسان اس مقدس سفر کے لیے روانہ ہوتا ہے۔ حج کے بعد ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لائے۔ حج امتِ مسلمہ کا ایک عظیم اجتماع بھی ہے، جہاں مسلمان ایک دوسرے کے مسائل اور مشکلات کو سمجھتے ہیں اور باہمی اخوت اور بھائی چارے کو فروغ ملتا ہے۔
مناسکِ حج
احرام
ان لباسوں کو جو حاجی حج یا عمرہ کے دوران پہنتے ہیں۔
تلبیہ
وہ کلمات ہیں جو حاجی حج کے دوران مسلسل دہراتا ہے۔
طواف
خانہ کعبہ کے گرد چکر لگانا اور باآوازِ بلند تلبیہ اور دعا کے ساتھ طواف کرنا ہے۔
مقامِ ابراہیم
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام سے منسوب یہ وہ جگہ ہے جو خانۂ کعبہ کے قریب واقع ہے۔ یہاں نماز ادا کی جاتی ہے۔
سعی
صفا اور مروہ کے درمیان سات چکروں کو سعی کہتے ہیں۔ حج اور عمرہ میں سعی کرنا ضروری ہے۔
وقوفِ
عرفہ میدانِ عرفات میں 9 ذی الحجہ کو ٹھہرنا حج کا رکنِ اعظم ہے۔ اگر کوئی شخص یہ رکن ادا نہ کرے تو اس کا حج ادا نہیں ہوتا۔
رمی
منیٰ میں مخصوص مقامات پر مقررہ دنوں میں کنکریاں مارنے کو رمی کہتے ہیں۔
قربانی
ایامِ نحر (10، 11، 12 ذی الحجہ) میں حاجی قربانی کا انتظام کرتا ہے۔ یہ حج کے اہم اعمال میں سے ایک ہے۔
Important Information about Hajj
حج اسلام کا پانچواں رکن ہے۔
حج ہر صاحبِ استطاعت پر زندگی میں ایک بار فرض ہے۔
حج 9 ہجری میں فرض ہوا۔
قرآن میں حج کا ذکر سورۃ آلِ عمران اور سورۃ الحج میں ہے۔
حج کا مہینہ: ذوالحجہ، ایامِ حج 8 تا 13 ذوالحجہ۔
حج کا سب سے اہم دن 9 ذوالحجہ (یومِ عرفہ) ہے۔
وقوفِ عرفہ حج کا رکنِ اعظم ہے۔
حج کے تین فرائض: احرام، وقوفِ عرفہ، طوافِ زیارت۔
حج کا آغاز احرام باندھنے سے ہوتا ہے۔
حجِ تمتع، قران، افراد تین اقسام ہیں۔
حج کی نیت دل سے اور تلبیہ زبان سے کیا جاتا ہے۔
تلبیہ: “لبیک اللہم لبیک…”
طواف خانۂ کعبہ کے گرد سات چکروں کو کہتے ہیں۔
صفا و مروہ کی سعی حج کا حصہ ہے۔
رمیِ جمرات منیٰ میں کی جاتی ہے۔
قربانی 10 ذوالحجہ کو کی جاتی ہے۔
حج کا پہلا عمل طوافِ قدوم ہوتا ہے۔
حج کا آخری عمل طوافِ وداع ہوتا ہے۔
حج کا خطبہ 9 ذوالحجہ کو میدانِ عرفات میں ہوتا ہے۔
حجِ اکبر تب ہوتا ہے جب جمعہ عرفہ کے دن ہو۔
حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے خانہ کعبہ تعمیر کیا۔
حضرت ہاجرہؑ کی سعی کو یادگار بنا کر سعی رکھی گئی۔
حج مسلمانوں کے اتحاد کی علامت ہے۔
حج مالی و جسمانی عبادت ہے۔
نبی کریم ﷺ نے زندگی میں ایک ہی حج کیا: حجۃ الوداع۔
آخری الٰہی کتاب قرآنِ کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر نازل ہوئی۔ قرآنِ کریم کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہے، اس لیے اس میں ایک حرف کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی۔ قرآنِ کریم میں کل 114 سورتیں ہیں، اسے 30 پاروں میں تقسیم کیا گیا ہے اور مزید 7 منزلیں بنائی گئی ہیں۔ قرآنِ کریم میں 14 سجدے ہیں۔ حروف کی مجموعی تعداد 3,206,270 اور کلمات کی تعداد 86,430 ہے۔ اس میں کل 540 رکوع ہیں۔
معلومات قرآنِ مجید
پارے | سورتیں | حروف | کلمات | رکوع | منزل | سجدے |
---|---|---|---|---|---|---|
30 | 114 | 3,206,270 | 86,430 | 540 | 7 | 14 |
معلومات آیات
عربی زبان میں لفظ ’’آیت‘‘ کے معنی ’’نشانی‘‘ کے ہیں۔ اصطلاحاً قرآنِ کریم میں ایک جملہ یا چند الفاظ پر مشتمل حصہ ’’آیت‘‘ کہلاتا ہے۔ بعض روایات میں قرآنِ کریم کی کل آیات 6666 بتائی گئی ہیں، جب کہ جدید تحقیق کے مطابق آیات کی تعداد تقریباً 6236 ہے۔
مشہور بیان کے مطابق قرآنِ کریم میں:
1000 آیاتِ امر (حکم دینے والی آیات)
1000 آیاتِ نہی (منع کرنے والی آیات)
1000 آیاتِ وعد (خوشخبری یا انعام کی آیات)
1000 آیاتِ وعید (تنبیہ یا عذاب کی آیات)
1000 آیاتِ حلال (حلال و جائز امور سے متعلق آیات)
1000 آیاتِ مثال (مختلف مثالوں پر مبنی آیات)
ان سب کو ملا کر بعض کتب میں کل 6000 یا 6666 آیات کا تذکرہ ملتا ہے، جب کہ دقیق شمار کے مطابق 6236 آیات متعین کی گئی ہیں۔
قرآنِ مجید کے نزول کی مدّت
مجموعی طور پر نزولِ قرآن کا عرصہ 23 سال ہے
بارہ سال آٹھ ماہ (تقریباً) مکۃ المکرمہ میں
نو سال نو ماہ اور نو دن (تقریباً) مدینۃ المنورہ میں
مکی اور مدنی آیات کی خصوصیات
قرآنِ کریم میں مکی سورتوں کی تعداد 87 اور مدنی سورتوں کی تعداد 27 بیان کی جاتی ہے، جب کہ بعض روایات میں مکی سورتوں کی تعداد 86 اور مدنی سورتوں کی تعداد 28 بھی ملتی ہے۔ مکی دور میں نازل ہونے والی سورتوں میں زیادہ تر توحید، آخرت اور رسالت کے مضامین بیان ہوئے، جب کہ مدنی سورتوں میں زیادہ تر احکامِ شرعیہ، معاشرتی و اجتماعی نظام اور امتِ مسلمہ کے باہمی معاملات کا تفصیلی ذکر ملتا ہے۔
قرآن پاک میں مذکور انبیائے کرام
شمار | نامِ نبی علیہ السلام | شمار | نامِ نبی علیہ السلام |
---|---|---|---|
1 | حضرت آدمؑ | 14 | حضرت موسیؑ |
2 | حضرت نوحؑ | 15 | حضرت ہارونؑ |
3 | حضرت ادریسؑ | 16 | حضرت الیاسؑ |
4 | حضرت ابراہیمؑ | 17 | حضرت الیسعؑ |
5 | حضرت ہودؑ | 18 | حضرت ذوالکفلؑ |
6 | حضرت اسماعیلؑ | 19 | حضرت داؤدؑ |
7 | حضرت صالحؑ | 20 | حضرت سلیمانؑ |
8 | حضرت لوطؑ | 21 | حضرت زکریاؑ |
9 | حضرت اسحاقؑ | 22 | حضرت یحییؑ |
10 | حضرت یعقوبؑ | 23 | حضرت عیسیؑ |
11 | حضرت یوسفؑ | 24 | حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ |
12 | حضرت شعیبؑ | (بعض روایات میں مزید ناموں کا ذکر بھی ملتا ہے) | |
13 | حضرت ایوبؑ |
قرآن پاک میں مذکور فرشتے
حضرت جبرائیل علیہ السلام
حضرت میکائیل علیہ السلام
قرآن پاک میں مذکور مساجد
مسجد الحرام
مسجدِ اقصی
مسجدِ ضرار
مسجدِ قباء
مسجدِ نبوی ﷺ
قرآن پاک میں مذکور پھل
انجیر
زیتون
انگور
انار
کیلا
کھجور
قرآن پاک میں مذکور پرندے
ہدہد
ابابیل
کوّا
قرآن پاک میں مذکور پہاڑ
طور
صفا
مروہ
(بعض جگہ صفا اور مروہ کو پہاڑوں کے بجائے دو پہاڑیاں بھی کہا جاتا ہے)
قرآن پاک میں مذکور حشراتُ الارض
چیونٹی
مکھی
مچھر
Important Information about Quran e Pak
قرآن 23 سال میں نازل ہوا۔
قرآن کا آغاز سورۃ العلق سے ہوا۔
قرآن کی پہلی مکمل نازل سورت سورۃ الفاتحہ ہے۔
قرآن کی آخری نازل سورت سورۃ النصر ہے۔
قرآن کی سب سے بڑی سورت سورۃ البقرہ ہے۔
سب سے چھوٹی سورت سورۃ الکوثر ہے۔
قرآن میں 114 سورتیں اور 30 پارے ہیں۔
قرآن میں 540 رکوع اور 6666 آیات (روایتی گنتی) ہیں۔
قرآن میں 14 آیاتِ سجدہ ہیں۔
قرآن کی تلاوت عبادت ہے۔
قرآن اللہ کا کلام ہے، کسی بشر کا نہیں۔
قرآن کی حفاظت اللہ نے خود کی (سورۃ الحجر)۔
قرآن کی پہلی آیت “اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ” ہے۔
قرآن کی آخری آیت سورۃ البقرہ کی “واتقوا یوما…” مانی جاتی ہے۔
قرآن کی تلاوت باوضو حالت میں کی جاتی ہے۔
قرآن کا سب سے پہلا حافظ حضرت عثمانؓ کو کہا جاتا ہے (روایتاً)۔
قرآن کا نزول غارِ حرا میں ہوا۔
قرآن میں نبی کریم ﷺ کا ذکر محمد اور احمد کے نام سے آیا۔
قرآن عربی زبان میں نازل ہوا۔
قرآن کی ترتیب توقیفی ہے (وحی سے)۔
قرآن کی سب سے طویل آیت آیت الدین (282) ہے۔
قرآن مجید مکمل کتابِ ہدایت ہے۔
قرآن میں سب سے زیادہ نام حضرت موسیٰؑ کا آیا ہے۔
قرآن قیامت تک کے لیے محفوظ کتاب ہے۔
اہلِ بیت
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ
حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا
حضرت حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ
حضرت حسین رضی اللہ عنہ
امہاتُ المؤمنین
حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا
حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا
حضرت عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا
حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا
حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا
حضرت اُمِّ سلمہ (ہند بنت ابی اُمیّہ) رضی اللہ عنہا
حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا
حضرت جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا
حضرت اُمِّ حبیبہ (رملہ بنت ابی سفیان) رضی اللہ عنہا
حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا
حضرت میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا
حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا
حضرت ریحانہ بنت زید رضی اللہ عنہا
حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی بیٹیاں
حضرت فاطمہؓ
حضرت زینبؓ
حضرت رقیہؓ
حضرت اُمِّ کلثومؓ
حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے بیٹے
حضرت ابراہیمؓ
حضرت عبداللہؓ
حضرت قاسمؓ
عشرۂ مبشرہ
حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے جن صحابۂ کرام کو ان کی زندگی ہی میں جنت کی خوشخبری دی، اُنہیں ’’عشرۂ مبشرہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان خوش نصیب حضرات کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
حضرت ابوبکر صدیقؓ
حضرت عمر فاروقؓ
حضرت عثمانِ غنیؓ
حضرت علی المرتضیؓ
حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ
حضرت زبیر بن عوامؓ
حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ
حضرت سعید بن زیدؓ
حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ
حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے قاصد
نبی کریم ﷺ نے ہجرت کے بعد مختلف بادشاہوں اور حکمرانوں کے نام اپنے پیغامات و خطوط بھیجے تاکہ اُنہیں اسلام کی دعوت دی جائے۔ ان خطوط کو پہنچانے والے جن صحابہ کرامؓ کا تذکرہ ملتا ہے، اُن کے نام درج ذیل ہیں:
حضرت جعفر طیارؓ
حضرت عمرو بن اُمیہ ضمریؓ
حضرت شجاع بن وہب اسلمیؓ
حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ
حضرت دِحیہ کلبیؓ
حضرت سلیط بن عمروؓ
حضرت علاء بن حضرمیؓ
جن بادشاہوں اور حکمرانوں کو خطوط بھیجے گئے
ملک | حکمران |
---|---|
مصر | شاہِ مصر (مقوقس) |
بحیرہ | (تصویر میں واضح نہیں) |
روم | قیصرِ روم (ہرقل) |
ایران | کسریٰ فارس (خسرو پرویز) |
عمان | (تصویر میں واضح نہیں) |
یمامہ | (تصویر میں واضح نہیں) |
بحرین | منذر بن ساوی |
غزوۂ بدر
مدینہ منوّرہ سے چند میل کے فاصلے پر واقع بدر کے مقام پر 17 رمضان المبارک 2 ہجری کو مسلمانوں اور کفّار کے درمیان پہلا غزوہ ہوا۔ اس غزوے میں مسلمانوں کی تعداد 313 تھی، جب کہ کفّار کی تعداد ایک ہزار تھی۔ یہ غزوۂ اسلام کی پہلی عظیم فتح تھی، جس میں مسلمانوں کو کامیابی حاصل ہوئی۔
غزوۂ اُحد
غزوۂ اُحد مدینہ سے شمال کی طرف تین میل کے فاصلے پر واقع پہاڑ اُحد کے دامن میں 3 ہجری کو مسلمانوں اور کفّار کے درمیان پیش آیا۔ اس جنگ میں ابتدا میں مسلمانوں کو کامیابی ملی، مگر بعد میں تیراندازوں کی حکم عدولی کے باعث نقصان اٹھانا پڑا اور اس میں کئی صحابۂ کرام شہید ہوئے۔
غزوۂ خندق
غزوۂ خندق (یا غزوۂ احزاب) 5 ہجری میں پیش آیا، جب مشرکینِ مکّہ نے مدینہ منوّرہ کا محاصرہ کیا۔ صحابیِ رسول حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے شہر کے گرد خندق کھودی گئی۔ اس جنگ میں مسلمانوں نے دفاعی حکمتِ عملی سے کامیابی حاصل کی، اور کفّار کو پسپا ہونا پڑا۔
غزوۂ خیبر
غزوۂ خیبر محرم 7 ہجری کو پیش آیا۔ یہودی قبائل کے مضبوط قلعے خیبر میں موجود تھے۔ اس غزوے میں 93 یہودی ہلاک ہوئے اور 15 مسلمان شہید ہوئے۔ یہودیوں کے قلعے بالآخر فتح ہوئے اور اسلام کا پرچم خیبر کے میدانوں میں بلند ہوا۔
غزوۂ حنین
غزوۂ حنین شوال 8 ہجری میں پیش آیا۔ ہزاروں کی تعداد میں حَوادین اور ہوازن کے قبائل نے مسلمانوں پر حملہ کیا۔ اس جنگ میں ابتدائی طور پر مسلمانوں کو شدید آزمائش کا سامنا کرنا پڑا، لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ کی نصرت شاملِ حال ہوئی اور دشمن کے بڑے بڑے سرداروں نے بھی اسلام قبول کیا۔
غزوۂ تبوک
غزوۂ تبوک 9 ہجری میں پیش آیا۔ تبوک کا مقام شام کے راستے میں واقع ہے۔ مسلمانوں نے اس جنگ کے لیے طویل سفر کیا۔ اس غزوے میں کفّار سے براہِ راست کوئی بڑی لڑائی نہیں ہوئی، تاہم اس دوران مسلمانوں کی طاقت کا اظہار ہوا اور اسلام کی تکمیلِ قوت کا مرحلہ سامنے آیا۔
جنگِ موتہ
جنگِ موتہ شام کے قریب ایک مقام پر پیش آئی۔ یہ جمادی الاول 8 ہجری میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں مسلمانوں اور ایک بڑی غیرمسلم فوج کے درمیان مقابلہ ہوا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو اگرچہ سخت آزمائش کا سامنا کرنا پڑا، تاہم انہوں نے بے مثال شجاعت اور جانثاری کا ثبوت پیش کیا۔ بعد ازاں اسلامی لشکر نے منظم انداز میں پسپائی اختیار کی اور محفوظ مقام تک لوٹ آیا۔
جنگِ قادسیہ
جنگِ قادسیہ مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان ۱۴ ہجری میں ہوئی۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور ایرانیوں کی طاقت کمزور پڑگئی۔ اس جنگ میں سیّدنا نعمان بن مقرّن رضی اللہ عنہ شہید ہوئے۔
جنگِ یرموک
جنگِ یرموک مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان ۱۵ ہجری میں ہوئی۔ اس جنگ میں بھی مسلمانوں کو کامیابی ملی اور رومیوں کی سپرمیسی ختم ہوگئی۔ یوں جزیرۂ عرب سے باہر اسلام کے پھیلاؤ کا آغاز مزید مضبوط بنیادوں پر ہوا۔
Important Information about Ghazwat
نبی کریم ﷺ نے 27 غزوات میں شرکت فرمائی۔
پہلا غزوہ غزوۂ بدر 2 ہجری کو ہوا۔
غزوۂ بدر میں 313 مسلمان اور 1000 کفار تھے۔
غزوۂ احد 3 ہجری میں ہوا، 70 مسلمان شہید ہوئے۔
غزوۂ خندق 5 ہجری میں خندق کھود کر دفاع کیا گیا۔
حضرت سلمان فارسیؓ کا مشورہ خندق کھودنا تھا۔
غزوۂ خیبر 7 ہجری میں یہودیوں کے خلاف ہوا۔
فتح مکہ 8 ہجری میں بغیر جنگ کے ہوا۔
غزوۂ تبوک آخری غزوہ تھا (9 ہجری)۔
غزوۂ موتہ میں حضرت زید، جعفر و عبداللہ شہید ہوئے۔
غزوۂ بدر کو یوم الفرقان کہا جاتا ہے۔
غزوۂ احد میں حضرت حمزہؓ شہید ہوئے۔
غزوۂ خندق کو غزوۂ احزاب بھی کہتے ہیں۔
غزوۂ بنی قریظہ میں یہودی قبیلے کے خلاف کاروائی ہوئی۔
نبی کریم ﷺ نے 9 ہجری میں حجۃ الوداع سے قبل غزوات ختم فرمائے۔
غزوۂ بدر میں 14 مسلمان شہید ہوئے۔
غزوۂ احد میں نافرمانی کے سبب شکست ہوئی۔
غزوۂ حنین میں وقتی شکست کے بعد فتح ہوئی۔
غزوۂ بنی نضیر میں یہودیوں کو مدینہ سے نکالا گیا۔
غزوات میں قرآن کی آیات نازل ہوئیں۔
غزوۂ احد میں دندان مبارک شہید ہوا۔
غزوۂ احد میں نبی ﷺ زخمی ہوئے۔
اسلامی مہینوں کے نام
شمار | مہینہ | مختصر تعارف |
---|---|---|
1 | محرم | لفظ ’’محرم‘‘ کے معنی حرمت والا ہیں۔ اس ماہ کو ’’محرم الحرام‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی یہ مقدس شمار ہوتا تھا۔ اس میں بعض عبادات کا اجر و ثواب بڑھ جاتا ہے۔ |
2 | صفر | اسے ’’صفر‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جب عرب جنگ کے لیے نکلتے تو ان کے گھر خالی رہ جاتے۔ یہ مہینہ خشک سالی کی علامت بھی کہلاتا ہے۔ بعض روایات کے مطابق نحوست کا تصور بھی عوام میں پایا جاتا تھا جسے اسلام نے ختم کیا۔ |
3 | ربیع الاوّل | ’’ربیع‘‘ کے معنی ’’بہار‘‘ کے ہیں۔ جب یہ مہینہ پہلی بار آیا تو موسمِ بہار تھا۔ اسی مہینے میں نبی کریم ﷺ کی ولادتِ باسعادت ہوئی، اسی لیے اسے امتِ مسلمہ میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ |
4 | ربیع الثانی | ربیع الاوّل کے بعد آنے والا مہینہ۔ اسے ’’ربیع الآخر‘‘ بھی کہتے ہیں۔ یہ نام بھی موسمِ بہار سے نسبت رکھتا ہے، اگرچہ اس کے آغاز میں بہار کا موسم نہ بھی ہو۔ |
5 | جمادی الاوّل | لفظ ’’جمادی‘‘ جم جانے یا خشک ہونے کے معنی دیتا ہے۔ جب اس مہینے کا نام رکھا گیا تو اس وقت موسم سرد تھا۔ اسی نسبت سے اسے جمادی الاوّل کہا جاتا ہے۔ |
6 | جمادی الثانی | جمادی الاوّل کے بعد آنے والا مہینہ۔ اسے ’’جمادی الآخر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں بھی اسی موسمی نسبت کا تذکرہ ملتا ہے۔ |
7 | رجب | رجب کے معنی تعظیم کے ہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں اس مہینے میں جنگ کرنا حرام سمجھا جاتا تھا، اسی لیے اسے ’’حرمت والا مہینہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اسلام نے بھی اس کی حرمت برقرار رکھی۔ |
8 | شعبان | شعبان کے معنی بکھرنے کے ہیں۔ اس مہینے میں خیر و برکت اور روزی کی تقسیم کے حوالے سے بھی بعض روایات ملتی ہیں۔ اسی مہینے میں شبِ براءت (پندرہویں شب) آتی ہے، جسے مسلمانوں کے نزدیک اہمیت حاصل ہے۔ |
9 | رمضان | رمضان کے معنی سخت گرمی کے ہیں۔ جب اس مہینے کا نام رکھا گیا تو شدید گرمی کا موسم تھا۔ یہ اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے اور اس میں روزے فرض کیے گئے۔ اس کے فضائل قرآن و حدیث میں بکثرت بیان ہوئے ہیں۔ |
10 | شوال | شوال کے معنی بلند ہونے کے ہیں۔ عربوں کے ہاں اس مہینے میں اونٹنیوں کا دودھ کم یا خشک ہوجاتا تھا۔ عیدالفطر اسی مہینے کی پہلی تاریخ کو منائی جاتی ہے۔ |
11 | ذوالقعدہ | ذوالقعدہ کے معنی بیٹھنے کے ہیں۔ اس مہینے میں عرب عموماً جنگ و جدال سے رُک جاتے تھے۔ یہ بھی حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔ |
12 | ذوالحج | یہ سال کا آخری مہینہ ہے۔ اس میں حج کا عظیم فریضہ ادا کیا جاتا ہے۔ عیدالاضحی اسی مہینے کی ۱۰ تاریخ کو منائی جاتی ہے۔ اسے بھی حرمت والا مہینہ شمار کیا جاتا ہے۔ |
اسلامی دنوں کے نام
عربی | اردو |
---|---|
السبت | ہفتہ |
الاحد | اتوار |
الاثنین | پیر |
الثلثاء | منگل |
الاربعاء | بدھ |
الخمیس | جمعرات |
الجمعۃ | جمعہ |
اسلامی ایّام
10 محرم الحرام
(یومِ عاشور)
27 رجب
(نبی کریم ﷺ کے معراج کا مبارک دن)
15 شعبان
(شبِ برات)
27 رمضان المبارک
(نزولِ قرآن / لیلۃ القدر)
یکم شوال
(عیدُالفطر)
10 ذی الحجہ
(عیدُالاضحی)
12 ربیع الاوّل
(میلادِ مصطفیٰ ﷺ)
9 ذی الحجہ
(یومِ عرفہ)
ذیل میں بعض انبیائے کرام اور صحابۂ کرامؓ کے معروف القاب و خطابات کا ذکر ہے
نام مبارک | مشہور لقب / خطاب |
---|---|
حضرت آدمؑ | صفیُّ اللہ |
حضرت نوحؑ | آدمِ ثانی، نبیُّ اللہ |
حضرت ابراہیمؑ | خلیلُ اللہ |
حضرت اسماعیلؑ | ذبیحُ اللہ |
حضرت داؤدؑ | خلیفۃُ اللہ |
حضرت شعیبؑ | خطیبُ الانبیاء |
حضرت یونسؑ | ذوالنون |
حضرت عیسیؑ | روحُ اللہ |
حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ | رسولُ اللہ، خاتمُ الانبیاء |
حضرت ابوبکر صدیقؓ | صدیقِ اکبر |
حضرت عمر فاروقؓ | فاروقِ اعظم |
حضرت عثمان غنیؓ | ذوالنورین |
حضرت علی مرتضیؓ | حیدرِ کرار |
ابو البشر: حضرت آدمؑ
شیخ الانبیاء: یا حضرت شعیبؑ
نجیب اللہ: حضرت داؤدؑ
ابراہیم حنیف: حضرت ابراہیمؑ
صاحب المیزان: حضرت شعیبؑ
روح اللہ: حضرت عیسیؑ
ذوالنون: حضرت یونسؑ
خاتم الانبیاء: حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ
غنی: حضرت عثمانؓ
شخصیت | لقب / خطاب |
---|---|
حضرت نوح علیہ السلام | آدم ثانی |
حضرت ابراہیم علیہ السلام | ابوالانبیا، خلیلُ اللہ |
حضرت اسماعیل علیہ السلام | ذبیحُ اللہ |
حضرت موسیٰ علیہ السلام | کلیمُ اللہ |
حضرت عیسیٰ علیہ السلام | روحُ اللہ |
حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ | خاتمُ النبیین، رسولُ اللہ |
حضرت داؤد علیہ السلام | خلیفۃُ اللہ |
حضرت خضر علیہ السلام |
ہادی
|
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ | سیدُ الشہدا |
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ | شاعرُ الرسول |
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ | امینُ الامت |
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ | سیفُ اللہ |
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ | حَبرُ الامت |
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ | نجیبُ اللہ |
حضرت بلال رضی اللہ عنہ | مؤذنِ رسول |
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ | ذوالنورین |
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ | فاروقِ اعظم |
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ | شیرِ خدا، مرتضیٰ، کرّم اللہ وجہہ |
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ | امام شافعیؒ |
معلوماتِ عالمِ اسلام
جگہ / ملک | خصوصیات |
---|---|
مکّہ مکرمہ اور مسجدِ نبوی ﷺ (سعودی عرب) | اسلامی دنیا کے مقدّس ترین مقامات |
انڈونیشیا | آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا اسلامی ملک، اور سب سے زیادہ آتش فشاں پہاڑوں والا اسلامی ملک |
قازقستان | رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا اسلامی ملک |
K-2 (پاکستان) | اسلامی ممالک کا سب سے بلند ترین مقام (دُنیا کی دوسری بُلند ترین چوٹی) |
صحرائے اعظم (صحارا) | اسلامی ممالک کا سب سے بڑا صحرا |
ازمت (ترکی) | اسلامی دنیا کا طویل ترین پُل (شہر ازمت کے قریب تعمیر ہونے والا پُل) |
دریائے نیل | اسلامی ممالک کا سب سے بڑا دریا (گزرتا ہے مصر، سوڈان وغیرہ سے) |
پاکستان | دُنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی طاقت |
او آئی سی (OIC) | اسلامی ممالک کی سب سے بڑی تنظیم |
مالدیپ | رقبے کے لحاظ سے سب سے چھوٹا اسلامی ملک |
شاہی محل (برونائی) | اسلامی دنیا کا سب سے بڑا شاہی محل |
جامعہ ازہر (مصر) | اسلامی دنیا کی سب سے قدیم یونیورسٹی |
مکہ مکرمہ: خانۂ کعبہ اور مسجدِ حرام کا مقدس مرکز
مدینہ منورہ: مسجدِ نبوی ﷺ اور روضۂ رسول ﷺ کا شہر
انڈونیشیا: آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا اسلامی ملک
قازقستان: رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا اسلامی ملک
کے ٹو (پاکستان): اسلامی دنیا کی بلند ترین چوٹی
صحارا (شمالی افریقہ): اسلامی ممالک کا وسیع ترین صحرا
ازمت (ترکی): اسلامی دنیا کا طویل پُل واقع
دریائے نیل: اسلامی دنیا کا طویل ترین دریا
مالدیپ: رقبے کے لحاظ سے سب سے چھوٹا اسلامی ملک
برونائی: وسیع شاہی محل ’’استانہ نور الایمان‘‘ کا حامل
جامعہ ازہر (مصر): اسلامی دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی
سعودی عرب: حرمین شریفین کا محافظ ملک
مسجدِ الحرام: دنیا کی سب سے وسیع مسجد
ایران: قدیم فارس کی تہذیب اور اسلامی انقلاب کا ملک
ترکی: خلافتِ عثمانیہ کی یادگار ریاست
شام: اموی خلافت اور تاریخی شہرِ دمشق کا مرکز
عراق: قدیم تہذیبوں اور خلافتِ عباسیہ کا مسکن
متحدہ عرب امارات: جدید عرب ترقی کی مثال
قطر: خلیجی دولت اور عالمی ایونٹس کا میزبان
اومان: مشرقِ وسطیٰ کا پُرسکون اور روایتی ملک
کویت: تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ریاست
بحرین: جزائر پر مشتمل خلیجی ملک
مراکش: مغربی افریقہ میں قدیم اسلامی سلطنت
الجزائر: شمالی افریقہ کا وسیع رقبے والا ملک
بنگلہ دیش: جنوبی ایشیا کا گنجان آباد اسلامی ملک
سب سے پہلا کلمہ ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ ہے۔
سورۃ الناس قرآنِ مجید کی آخری سورت ہے۔
سورۃ الاخلاص کی تلاوت ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔
سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیلُ اللہ کہا جاتا ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔
حضور نبی کریم ﷺ کی ولادت مبارکہ عام الفیل میں ہوئی۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔
قرآنِ مجید میں کل 114 سورتیں ہیں۔
خانۂ کعبہ کو پہلا گھر قرار دیا گیا جسے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے بنایا گیا۔
حضور نبی کریم ﷺ پر پہلی وحی غارِ حرا میں نازل ہوئی۔
اسلام کے پانچ ارکان ہیں: کلمۂ طیبہ، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج۔
ہجرتِ مدینہ کے وقت حضور ﷺ کی عمر مبارک 53 سال تھی۔
یومِ بدر 17 رمضان المبارک 2 ہجری کو ہوا۔
غزوۂ اُحد 3 ہجری میں ہوا۔
غزوۂ خندق 5 ہجری میں پیش آیا۔
صلح حدیبیہ 6 ہجری میں ہوئی۔
فتحِ مکّہ 8 ہجری میں ہوئی۔
خطبۂ حجۃ الوداع 10 ہجری میں دیا گیا۔
حضور ﷺ کی وفات 11 ہجری میں ہوئی۔
خلافتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ 2 سال 3 ماہ تک رہی۔
خلافتِ عمر فاروق رضی اللہ عنہ 10 سال 6 ماہ تک رہی۔
خلافتِ عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ 12 سال تک رہی۔
خلافتِ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تقریباً 5 سال تک رہی۔
خلافتِ حسن رضی اللہ عنہ تقریباً 6 ماہ تک رہی۔
غزوۂ موتہ حضور نبی کریم ﷺ کے دور میں 8 ہجری میں پیش آیا۔
غزوۂ خندق میں خندق کھودنے کا مشورہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے دیا۔
حضور نبی کریم ﷺ کے زمانے میں سورۃ یٰسین اور سورۃ طٰہٰ اکثر تلاوت کی جاتی تھیں۔
’’روحُ اللہ‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کہا جاتا ہے۔
’’کلیمُ اللہ‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کہا جاتا ہے۔
’’خلیلُ اللہ‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کہا جاتا ہے۔
’’ذوالنون‘‘ حضرت یونس علیہ السلام کو کہا جاتا ہے۔
’’صاحبُ المیزان‘‘ حضرت شعیب علیہ السلام کو کہا جاتا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر مسلسل 17 نمازیں پڑھائیں۔
عراق کا شہر کوفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں آباد کیا گیا۔
نمازِ جنازہ میں رکوع اور سجدہ نہیں ہوتے، بلکہ چار تکبیریں ہوتی ہیں۔
سب سے پہلا نمازِ جمعہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے پڑھایا۔
اسلام کے پہلے مؤذن حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ ہیں۔
مسلمان عورت کے کفن میں پانچ کپڑے اور مرد کے کفن میں تین کپڑے ہوتے ہیں۔
جنگِ یرموک 15 ہجری میں پیش آئی۔
جنگِ قادسیہ 14 ہجری میں پیش آئی۔
قرآنِ مجید میں آیات کی تعداد کے متعلق مشہور روایت 6666 ہے (جب کہ دقیق شمار 6236 بتایا جاتا ہے)۔
قرآنِ مجید میں کل 540 رکوع ہیں۔
قرآنِ مجید میں کل 7 منازل ہیں۔
قرآنِ پاک کی سب سے بڑی سورت ’’سورۃ البقرہ‘‘ ہے۔
عُمرہ کے واجب ہونے کا نصاب 948 گرام یا 23 تولے چاندی کے برابر ہے۔
ضرت عمر بن عبدالعزیز کو ’’عمرِ ثانی‘‘ کہا جاتا ہے۔
قربانی دینا سنتِ ابراہیمی ہے۔
فروعی مسائل کا ذکر سورۃ البقرہ میں آتا ہے۔
پہلا غزوہ ’’غزوۂ اَبوا‘‘ کہلاتا ہے۔
سورۃ الانفال میں ’’یومُ الفرقان‘‘ سے مراد غزوۂ بدر کا دن ہے۔
قرآن مجید 22 سال 5 ماہ اور 14 دن میں نازل ہوا۔
قرآن مجید کو پہلی بار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں اکٹھا کر کے لکھا گیا۔
حضور نبی کریم ﷺ کے 99 صفاتی نام ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے بھی 99 صفاتی نام ہیں۔
حضرت ہارون علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی تھے۔
قرآن کریم کے نزول کا آغاز غارِ حرا سے ہوا۔
حضور نبی کریم ﷺ کے پاس قرآن پاک حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے۔
’’رَب‘‘ کے معنی ’’پالنے والا‘‘ کے ہیں، یہ لفظ قرآن میں 806 مرتبہ آیا ہے۔
قرآن مجید میں حرف ’’الف‘‘ سب سے زیادہ آیا ہے۔
تورات یہودیوں کی مذہبی کتاب ہے، انجیل عیسائیوں کی، اور زبور حضرت داود علیہ السلام پر نازل ہوئی۔
قرآن مجید کی سب سے طویل سورت ’’سورۃ البقرہ‘‘ ہے۔
سورۃ کہف مکی سورت ہے۔
سورۃ فاتحہ کو ’’اُمُّ القرآن‘‘ بھی کہتے ہیں۔
سورۃ یٰسین کو ’’قلبُ القرآن‘‘ کہا جاتا ہے۔
سورۃ الاخلاص کو ’’سورۃ التوحید‘‘ بھی کہتے ہیں۔
قرآن مجید کی چودہ سورتیں حروفِ مقطعات سے شروع ہوتی ہیں۔
’’الباری‘‘ کے معنی ’’پیدا کرنے والا‘‘ ہیں، جب کہ ’’رہبان‘‘ کے معنی ’’روشن وادی‘‘ کے ہیں (بعض لغات میں مختلف تشریحات ملتی ہیں)۔
سورۃ الکوثر کو ’’اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ‘‘ بھی کہتے ہیں۔
سورۃ الانفال میں غزوۂ بدر کا ذکر ہے، جسے ’’یومُ الفرقان‘‘ کہا گیا ہے۔
حضرت ہارون علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی اور معاون تھے۔
انعام کے معنی ’’چوپائے‘‘ کے ہیں اور سورۃ الحدید کے معنی ’’لوہے کی سورت‘‘ کے ہیں۔
قرآنِ مجید کی کل ۱۱۴ سورتیں ہیں۔
قرآن مجید کا آخری لفظ (ر) بتایا جاتا ہے (بعض روایات میں ’’س‘‘ بھی مذکور ہے، اصل تحریر میں (ر) درج ہے)۔
سورۃ الواقعہ کو ’’عروسُ القرآن‘‘ بھی کہتے ہیں۔
توریت یہودیوں کی مذہبی کتاب ہے، انجیل مسیحیوں کی اور زبور حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی۔
غزوۂ خندق کو ’’غزوۂ احزاب‘‘ بھی کہتے ہیں، اس میں خندق کھودنے کا کام ۲۰ دنوں میں مکمل ہوا۔
غزوۂ خیبر میں ۹۳ یہودی مارے گئے اور ۱۵ مسلمان شہید ہوئے۔
غزوۂ بدر میں ۱۴ مسلمان شہید ہوئے جبکہ ۷۰ کفّار مارے گئے اور ۷۰ قیدی بنائے گئے۔
قرآن مجید کے آخری پارے میں ۳۷ سورتیں اور ۳۹ رکوع ہیں۔
جانِ آزاد یہودیوں کی ایک بستی کا نام تھا۔
او آئی سی (OIC) کا ہیڈکوارٹر جدّہ (سعودی عرب) میں ہے۔
اسلام کا پہلا تیرانداز حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ کو کہا جاتا ہے۔
اسلام کی پہلی بار (یعنی تلوار) اٹھانے والے صحابی حضرت زبیر بن العوّامؓ تھے۔
قاریُ القرآن کا لقب حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو دیا جاتا ہے۔
جنگِ تبوک ۹ ہجری میں پیش آئی، اسے حضور نبی کریم ﷺ کا آخری غزوہ بھی کہا جاتا ہے۔
قرآن مجید میں صرف ایک صحابی حضرت زید بن حارثہؓ کا نام صراحتاً ذکر ہوا ہے۔
حضرت زید بن حارثہؓ کا ذکر سورۃ الاحزاب میں آیا ہے۔
اذان میں ’’اللہ اکبر‘‘ کے چار الفاظ، چار مرتبہ آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان چھ دنوں میں تخلیق فرمائے۔
بدھ مت کے بانی گوتم بُدّھ کا اصل نام سدھارتھ تھا۔
ہندوؤں کی مقدّس کتابیں ’’وید‘‘ کہلاتی ہیں، جو چار ویدوں کا مجموعہ ہے۔
خانۂ کعبہ کی پہلی تعمیر حضرت آدم علیہ السلام نے کی (روایات میں اختلاف بھی ملتا ہے)۔
عہد نامۂ عتیق (قدیم عہد) کی پہلی کتاب ’’پیدائش‘‘ کہلاتی ہے۔
عقیدۂ تثلیث مسیحی مذہب کی بنیادی تعلیم ہے۔
زرتشتیوں کی مقدس کتاب ’’اوستا‘‘ ہے، اور انہیں بعض اوقات اہلِ کتاب بھی کہا جاتا ہے۔
ذوالنون یا صاحبُ الحوت حضرت یونس علیہ السلام کو کہتے ہیں۔
قرآن مجید میں چھ سورتیں ایسی ہیں جن کے نام انبیاء علیہم السلام پر ہیں۔
واقعۂ فیل حضور نبی کریم ﷺ کی ولادت سے کچھ عرصہ قبل پیش آیا۔
احکامِ عشرہ کا تعلق یہودی مذہب سے ہے۔
مردم شماری کا پہلا حکم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جاری فرمایا۔
حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ولادت کے وقت ان کے والد حضرت عبداللہ وفات پا چکے تھے۔
آپ کا گہوارہ خانۂ کعبہ میں رکھا گیا۔
طائف کو ’’وادیِ غیر ذی زرع‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
غزوۂ بدر میں 14 مسلمان شہید ہوئے اور 70 کفّار قیدی بنائے گئے۔
قرآنِ مجید کے آخری پارے میں 37 سورتیں اور 39 رکوع ہیں۔
ہجری سال کا آغاز 622 عیسوی میں ہوا۔
غزوۂ خندق (5 ہجری)، غزوۂ خیبر (7 ہجری)، صلح حدیبیہ (6 ہجری) اور غزوۂ تبوک (9 ہجری) میں پیش آئے۔
قرآنِ مجید تقریباً 23 سال کے عرصے میں نازل ہوا۔
قرآنِ مجید میں کل 114 سورتیں، 30 پارے، 540 رکوع اور 6236 آیات ہیں۔
قرآنِ مجید میں مجموعی طور پر 323,760 حروف اور 86,430 کلمات ہیں۔
قرآنِ مجید کی آخری آیت سورۃ النصر میں نازل ہوئی۔
پہلی وحی غارِ حرا میں ’’اِقْرَأ‘‘ کے لفظ سے نازل ہوئی۔
مردم شماری کا پہلا باقاعدہ حکم بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیا۔
خلیفہ سوم کہلانے والے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو ’’ذوالنورین‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
ہجری کی ابتدا سے لے کر خلافتِ راشدہ تک کا زمانہ تقریباً 30 سال پر محیط رہا۔
غزوۂ اُحد (3 ہجری) اور غزوۂ بدر (2 ہجری) بھی عہدِ رسالت میں اہم معرکے ہیں۔
فتحِ مکّہ 8 ہجری میں ہوئی، جسے اسلام کی عظیم فتح قرار دیا جاتا ہے۔
غزوۂ تبوک کو بعض روایات میں رسول اللہ ﷺ کا آخری غزوہ بھی کہا جاتا ہے۔
بیعتِ عقبہ اولیٰ (12 نبوی) اور بیعتِ عقبہ ثانیہ (13 نبوی) کے بعد ہجرتِ مدینہ (14 نبوی) عمل میں آئی۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز کو ’’عمرِ ثانی‘‘ کا لقب دیا جاتا ہے۔
مسلمانوں نے پہلی مرتبہ صلاۃِ خوف بعض روایات کے مطابق 4 ہجری میں ادا کی۔
سورۃ الفاتحہ کو ’’اُمُّ القرآن‘‘ اور سورۃ یٰسین کو ’’قلبُ القرآن‘‘ کہا جاتا ہے۔
سورۃ الاخلاص کو ’’سورۃ التوحید‘‘ بھی کہتے ہیں۔
قرآنِ مجید کی پہلی جمع و تدوین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ہوئی، بعد ازاں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس کی کتابت کے متعدد نسخے تیار کروائے۔
قرآن پاک کی سب سے چھوٹی سورت الکوثر ہے۔
پانچ سورتیں ’عم‘ (یا بعض روایات کے مطابق ’حمد‘) سے شروع ہوتی ہیں۔
قرآن مجید میں 26 بار لفظ ’’اَرْحَم‘‘ آیا ہے۔
قرآن مجید میں 12 غزوات کا ذکر آیا ہے۔
مکی سورتوں کی تعداد 86 ہے۔
مدنی سورتوں کی تعداد 28 ہے۔
کئی سورتیں ’’حمد‘‘ سے شروع ہوتی ہیں۔
کئی سورتیں ’’الم‘‘ سے شروع ہوتی ہیں۔
قرآن مجید کی حفاظت کا ذمّہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔
قرآن مجید کی پہلی سورت سورۃ الفاتحہ ہے۔
قرآن مجید کی آخری سورت سورۃ الناس ہے۔
ہجری کیلنڈر کا آغاز حضرت عمر فاروقؓ نے کیا۔
قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا ذکر 32 مرتبہ آیا ہے۔
جنگِ جَمَل کے موقع پر حضرت علیؓ کے دور میں پہلی مرتبہ پولیس کی طرز پر ایک فورس تشکیل پائی۔
صلحِ حدیبیہ کو اسلام کی پہلی صلح کہا جاتا ہے۔
پہلا اسلامی بحری بیڑہ حضرت عثمانِ غنیؓ کے دور میں تیار ہوا۔
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری الہامی کتاب ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے بروز پیر 10 ہجری میں وفات پائی۔
سورۃ الرحمٰن کو قرآن میں ’’عروسُ القرآن‘‘ اور ’’زینتُ القرآن‘‘ بھی کہتے ہیں۔
غزوۂ حنین میں 26 مسلمان شہید ہوئے۔
قرآن مجید میں کل 12 غزوات کا ذکر آتا ہے۔
مکی سورتوں کی تعداد 86 ہے۔
مدنی سورتوں کی تعداد 28 ہے۔
بعض سورتیں ’’حمد‘‘ سے شروع ہوتی ہیں۔
بعض سورتیں ’’الم‘‘ سے شروع ہوتی ہیں۔
پہلا سجدۂ تلاوت سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 206 میں ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو ’’مدنی فقہ‘‘ کا بانی کہا جاتا ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو ’’امامِ اعظم‘‘ کہا جاتا ہے۔
قرآن مجید کی کئی سورتوں کے نام پھلوں، درختوں اور آخرت کے مقامات پر بھی رکھے گئے ہیں۔
قرآن مجید کے کل پارے 30 ہیں۔
قرآن مجید کو سب سے پہلے کتابی شکل میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جمع کیا گیا۔
’’صحیح بخاری‘‘ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ہے۔
قرآن مجید کی آخری نازل ہونے والی سورت ’’سورۃ النصر‘‘ ہے۔
قرآن مجید میں مجموعی طور پر 323,760 حروف اور 86,430 کلمات ہیں۔
قرآن مجید تقریباً 23 سال کے عرصے میں نازل ہوا۔
’’سورۃ الفتح‘‘ کو بعض کتب میں ’’سورۃ فتح مبین‘‘ بھی کہا گیا ہے۔
غزوۂ اُحد 3 ہجری میں، غزوۂ خندق 5 ہجری میں، غزوۂ خیبر 7 ہجری میں اور صلح حدیبیہ 6 ہجری میں پیش آئیں۔
مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔
عورتوں میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اسلام قبول کیا۔
بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔
غلاموں میں سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔
قابیل نے ہابیل کو قتل کیا، جو دونوں حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ یہ دنیا کا پہلا قتل تھا۔
نماز کی فرضیت معراج کی رات میں ہوئی۔
سورۃ الکوثر قرآن مجید کی سب سے چھوٹی سورت ہے۔
نمازِ جمعہ کا حکم ہجرت کے بعد نازل ہوا۔
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’صحیح مسلم‘‘ احادیث کا دوسرا مستند مجموعہ ہے